مفت حج و عمرہ 

ایک عرصہ پہلے میں نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کمیشن (جسے اب پاکستان میڈیکل کمیشن کے نام سے بدل دیا گیا ہے) کے چیئرمین کا انٹرویو کیا، ان سے پوچھا،کیا یہ درست ہے کہ ہمارے سینیئر ڈاکٹر حضرات  دوا ساز کمپنیوں کیساتھ گٹھ جوڑ کر کے مراعات حاصل کر رہے ہیں، یعنی فارماسیوٹیکل کمپنی  ڈاکٹر صاحب کو اپنی بنائی ہوئی مہنگی دوا اپنے نسخہ جات میں لکھنے کو کہتی ہے اور اسکے بدلے وہ کمپنی ڈاکٹر صاحب کو تحفے تحائف کے نام پر مراعات سے نوازتی ہے جس میں مفت گاڑی، بیرون ملک سیاحتی دورے جیسی پر کشش پیشکش شامل ہوتی ہیں۔ چیئرمین صاحب کا جواب تھا: ’’آپ صرف گاڑی اور بیرون ملک دوروں کی بات کر رہے ہیں،ڈاکٹرز کو مہنگی ادویات لکھنے کے عوض مفت حج و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے‘‘۔یعنی غریب مریض کی کھال اتار کر فارما کمپنیاں پیسے بناتی ہیں اور ڈاکٹر حضرات اس کام میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستانی ڈاکٹرز سے متعلق ایک دلچسپ تجزیاتی رپورٹ منظر عام پر آئی کہ پاکستانی ڈاکٹرز جان بوجھ کر غیر ضروری اور مہنگی ادویات مریضوں کو تجویز کرتے ہیں، بلکہ رپورٹ کیا ایسی بے بہا شکایات ریکارڈ پر موجود ہیں اور عوامی تجربہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات اپنے مریضوں کی صحت پر دوا ساز کمپنیوں کے معاشی مفاد کو فوقیت دیتے ہیں، جس کیلئے انہیں اپنے مریضوں کو وہ ادویات بھی لکھنا پڑتی ہیں جس کی کہ انہیں ضرورت نہیں ہوتی یا پھر وہ ضرورت کی دوا بہت مہنگی ہوتی ہے جبکہ اسکا متبادل موجود ہوتا ہے جو کہ انتہائی سستی ہوتی ہے،، ڈاکٹر حضرات سے ایک اولین گلہ جو روز اول سے چلا آ رہا ہے وہ یہ کہ جس ہینڈ رائٹنگ میں وہ  دوا کا نسخہ لکھتے ہیں اسے  پڑھنے کے لیئے ہینڈ رائٹنگ کے ایکسپرٹ بھی ہاتھ کھڑے کر لیتے ہیں اور اس روش کے باعث بعض اوقات مریض غلط دوا خرید بیٹھتا ہے اور اسکی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں صرف اس لیئے کہ ڈاکٹر صاحب نے نسخہ انتہائی عجلت میں لکھا۔ پاکستان میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایسی بہت سی ریسرچ موجود ہیں جن میں باقاعدہ تحقیق کے بعد بتایا گیا کہ اسی فیصد بڑے ڈاکٹرز کے نسخے ایسی ہینڈ رائٹنگ میں ہوتے ہیں جنہیں پڑھنا فارماسسٹ کے لیئے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ساری دنیا میں اس وقت اس پریکٹس کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی نسخہ ہو یا سرٹیفکیٹ یا رپورٹ وہ ہینڈ رائٹنگ میں نہیں بلکہ کمپیوٹر سے ٹائپ ہوگی۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ملک میں محرر اپنے ہاتھ سے جو ایف آئی آر لکھتا تھا اسے صرف وہی پڑھ سکتا تھا، پھر ڈیجیٹل دور میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ ایف آئی آر کا متن کمپیوٹر سے ٹائپ کیا جائے گا۔ ایک محرر کی گندی ہینڈرائٹنگ اکثر اوقات ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں جاتی ہے اس ایف آئی آر کی بنیاد پر موت و زندگی کے فیصلے بھی ہوتے ہیں تو کم از کم اس اہم  دستاویز کو کمپیوٹر سے ٹائپ ہونا چاہیئے۔ لیکن افسوس کی ہمارے میڈیکل  جیسے حساس شعبہ میں ابھی تک اس کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔جتنا بڑا ڈاکٹر ہو گا اتنی ہی ناقابل فہم ہینڈ رائٹنگ میں نسخہ لکھے گا،جسے کیمسٹ حضرات اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق لیتے ہیں اور غلط دوا کے استعمال کا امکان بہت حد تک موجود رہتا ہے۔ 
پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی جسے ڈریپ کہا جاتا ہے ایک عرصہ سے ڈاکٹر صاحبان کو ہدایات جاری کر چکا ہے کہ ڈاکٹر صاحبان نسخہ تجویز کرتے و قت دوا کا بنیادی نام لکھیں گے۔ مریض کی مرضی ہے کہ وہ جس مرضی کمپنی کی دوا خریدے۔ جیسے پیراسیٹامول ہے تو ڈاکٹر کو کمپنی کی برانڈڈ دوا کی بجائے صرف پیراسٹامول لکھنا چاہیئے۔ لیکن اربوں روپے منافع کمانے والی کمپنیاں اپنی برانڈڈ دواوں کی فرخت بڑھانے کے لیئے ڈاکٹر صاحبان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ  انکی بنائی ہوئی دوا ہی تجویز کریں،  ڈریپ نے باقاعدہ اصول وضع کیا ہے کہ جس دوا میں صرف ایک جز استعمال ہو گا اسے جینرک نام دیا جائے گا اور جو ادویات مختلف اجزاء کا مرکب ہوں گی صرف انہیں کمپنی اپنا نام دینے کی مجاز ہو گی۔ لیکن یہاں تو پیراسیٹامول ہو یا اسپرین، یک جز ادویات بھی ہر کمپنی اپنا نام سے بنا رہی ہے، وہ اسپرین جو ایک روپے کی دستیاب ہے ڈاکٹر صاحب اسے کسی نئے نام سے تجویز کریں گے جو کہ بیس روپے کی ملے گی۔نسخے میں جو درج ہے مریض  اسی نام کی دوا کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے داکٹر پر اعتبار کرتا ہے۔ لیکن اسے کیا پتہ کہ ڈاکٹر پر ادویات ساز کمنیوں کا کتنا ذیادہ اعتماد ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ صرف فارما سیوٹیکل کمپنیاں اور ڈاکٹرز ہی نہیں بلکہ اس گٹھ جوڑ میں ہماری حکومت  بالخصوص وزارت صحت اور  ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)برابر کی شراکت دار ہیں۔ جو پر کشش مراعات اور تحفے تحائف فارما کمپنیاں ڈاکٹرز کو پیش کرتی ہیں اس سے ذیادہ پر کشش آفر متعلقہ وزیر اور دیگر عہدیداران کو جاتی ہیں، پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر ایک روپے لاگت والی دوا کی قیمت سو روپے مقرر ہوتی ہے۔اگر فارما کمپنی کی ڈیمانڈ نہ مانی جائے تو حکومت کو دھمکی دی جاتی ہے کہ ہم یہ دوائی بنانا ہی بند کر دیں گے جس کے باعث  اہم ادویات بالخصوص جان بچانے والی ادویات کی قلت ہو گی اور مریض ایڑھیاں رگڑیں گے۔ میڈیا چیختا رہتا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ انتہائی غیر منصفانہ  اور نا جائزہے لیکن ایک روپے لاگت والی گولی کی قیمت سو روپے رکھنے کے بعد حکومت خود جواز پیش کرتی ہے کہ خام مال مہنگا ہو گیا ہے، روپے کی قدر کم ہو گئی ہے اس لئے اگر ہم ادویات کی قیمتیں نہ بڑھاتے تو پھر فارماسیوٹیکل کمپنیاں دوا بنانا بند کر دیتیں، ملک میں ادویات کا بحران  پیداہو جاتا، اس لیئے حکومت نے درست فیصلہ کر کے  بحران کو ٹال دیا۔اور یہ کہ یہ فیصلہ عوامی مفاد میں کیا گیا۔ ہاں جو مفاد خود حکومت نے حاصل کیا، جو شرح منافع فارما کمپنیوں کو ملا اور جو مفت حج و عمرے کی سعادت ڈاکٹرز کو ملی اس کا اس جمع خرچ میں کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔یہاں بیمار کی کھال اتارنے کے لیئے مافیا کا کارٹل ہے اور حکومت، فارما کمپنیوں سے لیکر ’بڑے ڈاکٹرز‘ سب اس کارٹل کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...