کلا ئمیٹ ریزیلینٹ پاکستان کانفرنس 

 اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی پر تشکیل کردہ 
Change  of  Climate of panellinter governmatal. 
کے ایک سائنسی جا ئزے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس صدی کے آخر تک عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت 1 سے 3.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے کے امکانات ہیں اس اضافے سے سطح سمندر میں 95 cm سے 115 cm اضافہ ہو جائے گا اور یوں سمندری طوفان اور سونامی سے خطرات بڑھ جائیں گے۔ 
اس وقت دنیا کو سب سے بڑا چیلنج 2050ء تک عالمی سطح پرزہریلی گیسو ں کے اخراج کو صفر پر لانا ہے اور 2030ء تک تمام صنعتوں سے زہریلی گیسو ں کے اخراج میں کم از کم 50 فیصد کمی کا ہدف مقرر کر رکھا ہے اور ہر حال میں عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھنے سے روکنا ہے اور اس مقصد کے لیے فطرت میں سرمایہ کاری ضروری ہے اس مقصد کیلئے پلا سٹک کے استعمال میں کمی، غزا کے ضیاع پر قابو پانا، اور صنعتوں سے کاربن کے اخراج میں 40 فیصد سے زیادہ کمی کرنا ہے۔
صنعتی ممالک کے گرین ہاؤس گیسز اور کاربن کے اخراج کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک میں موسمی تغیرات نے تباہی اور بربادی مچا رکھی ہے حالانکہ گرین ہاؤس گیسز کے مجموعی اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہو نے کے برابر ہے لیکن عالمی ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا بہت بڑا شکار ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں پاکستان میں موسمی تغیر ات کی وجہ سے ہونے والی تباہ کن بارشوں اور سیلابوں نے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں شدید تباہی مچا دی ہے موسمی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے سندھ میں پہلے کی نسبت 700 فیصد سے زائد بار شیں ہوئی ہیں صوبے کی 35 لاکھ ایکڑ زرعی زمینوں پر موجود فصلیں تباہ ہو گئی ہیں جس سے زرعی شعبے میں 300 ارب سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے بلوچستان میں 90 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوئی ہے اور وہاں 200 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور پورے پاکستان میں بارشوں، گلیشیرز کے پگھلنے اور سیلابوں کے سیل رواں سے 16ارب ڈالر ز کے نقصانات ہوئے۔جس کے لئے 9 جنوری کو
Pakistan resilient Climate on conference International. 
کا انعقاد جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہوا پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 16.3 ارب ڈالرز کے اخراجات کے تخمینے سے سیلاب زدگان کی بحالی کا فریم ورک پیش کیا ۔اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتو نیو گریس نے پاکستان کا مقدمہ بڑی دردمندی سے پیش کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ ہمیں پاکستان کو ماحولیاتی انصاف دینے کیلئے بھرپور مدد کرنی ہو گی انہوں نے بتایا کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں 80 لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں۔1700 افرادہلاک ہوئے۔ 90 لاکھ لوگ خط غربت کی سطح سے نیچے آگئے ہیں انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھا ہے اس کیلئے بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے
اقوام متحدہ کے ڈویلپمنٹ پر وگرام کے نمائندے کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کیلئے ضروری ہے کہ توانائی اور خوراک کی مد میں درآمد ت کیلئے اضافی اخراجات کیلئے پاکستان کی اضافی فنڈ نگ کی ضرورت پوری کرے - اگر چہ نومبر 2022 میں مصر میں پاکستان کی زبردست کوششوں کے نتیجے میں COp 27 منعقد ہوئی جس میں پاکستان کی کوششوں سے loss and damage fund قائم کیا گیا اب اسی فنڈ کے تحت پاکستان کو 10.57 ڈالرز کی شراکتی امداد کے وعدے (pledges) حاصل ہوئے ہیں مگر اس تجویز کردہ امداد ی وعدوں میں 90 فیصد نرم شرائط پر قرضے ہیں اور 10 فیصد گرانٹس ہیں قرضوں کے وعدوں میں اسلامک ڈویلپمنٹ بنک نے 4.2 ارب ڈالرز، ورلڈ بینک نے 2 ارب ڈالرز، ایشین انفراسٹرکچر انوسیٹمنٹ بنک 1 ارب ڈالرز اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے قرضوں کے اعلانات ہیں جبکہ سعودی عرب کے 1ارب ڈالرز، فرانس کے 408 ملین ڈالرز، امریکہ کے 100 ملین ڈالرز، یورپی یونین کے 97 ملین ڈالرز، جرمنی کے 90 ملین ڈالرز اور برطانیہ نے 43.50 ملین ڈالرز کی پراجیکٹس کی بنیاد پر گرانٹس ملیں گی Resilient Pak Conference کی کامیابی پاکستان کیلئے امید کا ایک جھونکا ہے۔ پاکستان کیلئے تعمیر نو اور بحالی کیلئے یہ امداد تین مراحل میں استعمال ہو گی جس میں ایک سالہ مختصر المیعاد، تین سالہ درمیانی مدت اور 5 تا 7 سال کی طویل المیعاد منصوبہ بندی شامل ہے۔پاکستان کی Climate  and Development کے مقا صد کیلئے جنیوا میں منعقدہ انٹر نیشنل کا نفرنس میں چار سٹریٹجک ریکوری مقا صد قائم کیے گئے ہیں۔پہلا مقصد بہتر حکمرانی اور ریاستی اداروں کی استعداد بڑھانا، شفافیت، سرکاری مالیاتی نظام اور سرکاری اخراجات کو بہتر بنانا، آڈٹ اور انسدادِ بدعنوانی کے اقدامات شامل ہیں۔ دوسرا وسطی مدتی مقاصد موسمی تبدیلی کے درپیش خطرات کا ادراک اور مقامی سطح پر فیصلہ سازی میں لوگوں کی شراکت کیلئے اعدادوشمار کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔
تیسرا موسمی حالات کی مانیٹر نگ اور پیشگی اطلاعات کے نظام کو مضبوط کرنا ہے علاوہ ازیں صوبائی سطح پر موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی نظام کیلئے کام کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا جبکہ طویل المدتی مقاصد کے تحت کریڈٹ مارکیٹ کیلئے ادارہ جاتی اصلاحات کے ذریعے بلا سود قرضوں کے اجراء کے عمل کو مرتب کرنا ہے علاوہ ازیں معمولات زندگی اور اقتصادی مواقعوں کی فراہمی کیلئے زراعت اور ملازمتوں کا استوار کرنا اور این جی اوز کے ذریعے کمیونٹی انوسیٹمنٹ فنڈز کا اجراء ان مقاصد کے تحت شراکت داری کی بنیاد پر پاکستان کی سیاسی قیادت اوربیورو کریسی کو مربوط اور قابلِ عمل منصوبہ بندی درکار ہے اور وہی حکومت ان پر ا جیکٹس کو شفافیت اور تکنیکی اعتبار سے viable بنا پائے گی جو خود مستحکم ہو اور بین الاقوامی اداروں کو اسکی ساکھ پر اعتماد قائم رہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس امداد کو جلد از جلد متاثرین تک پہنچانا ایک چیلنج ہو گا اس امداد کا زیادہ حصہ الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت بھی تبھی ممکن ہو سکے گا اگر اس کی فعال بیورو کریسی اور ٹیکنو کرییٹس اس کو بین الاقوامی برادری کی ترجیحات کے مطابق اپنے حصے کی رقوم کی شراکت کے ساتھ پراجیکٹس کی بروقت تیار کر یں گے جس سے پاکستان کی لائف لائن کو تقویت پہنچ سکے گی تاہم یہ امداد پاکستان کسی بھی صورت میں بجٹ سپورٹ پروگرام اور توازن ادائیگی کے مسائل کیلئے استعمال نہیں ہو سکتی ہے اور یہ رقوم فوری طور ہمیں منتقل بھی نہیں ہو سکتی ہے معاشی بحران پر قابو پا نے کیلئے پاکستان کو ہر حال میں آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا ہونگے بجٹ سپورٹ کیلئے سعودی عرب نے زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالرز سے بڑھا کر 5 ارب ڈالرز کر دیئے ہیں اور امارات کی حکومت نے بھی دو ارب ڈالرز کے سٹیٹ بینک کے پاس موجود ریزرو ز کو رول اور کر دیا ہے بلکہ ایک ارب ڈالرز کے مزید ریزروز دینے کا وعدہ کیا ہے اگر چین اور قطر بھی پاکستان کو financial Cushion  فراہم کر دے جس کی کافی امید ہے تو پاکستان آئی ایم ایف سے کچھ بہتر شرائط پر رکی ہوئی ایک ارب ڈالرز کی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگا مگر اسحاق ڈار کو مارکیٹ ایکسچینج ریٹ اور انٹر بنک ریٹ میں فرق ایک یا دو روپے تک لانا ہو گا اور منی بجٹ کے ذریعے بجلی، گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا اور ٹیکسوں کی شرح میں اضافے سے مہنگائی کی شرح 35 فیضد پہنچ جائے گی تاہم لانگ ٹرم معیشت کی بحالی کے لئے سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے جس کے امکانات فی الحال نظر نہیں آرہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...