پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ کیلئے مشاورت کا عمل شروع ہو چکا ہے جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے فیصلہ کے مطابق آج بروز منگل خیبر پی کے اسمبلی بھی تحلیل ہونے کا امکان ہے۔ عمران خان نے یقیناً وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈالنے کیلئے ہی پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی توڑنے کا اقدام اٹھایا ہے تاہم اب آئین کے تقاضوں کے مطابق دونوں صوبوں میں نگران حکومت تشکیل پائے گی۔ بے شک عمران خان کو عوام میں اپنی بڑھتی مقبولیت کا زعم ہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے اب تک ملک میں فوری عام انتخابات کے انعقاد کا تقاضا کر رہے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کو باہر نکالنے کا اقدام بھی اسی تناظر میں اٹھایا مگر اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی منظوری روک کر عمران خان کی فوری انتخابات کی جانب جانے کی حکمت عملی ناکام بنا دی جس کے بعد انہوں نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے تمام تر تحفظات کے باوجود عمران خان کا ساتھ نبھایا چنانچہ اب آئین کی دفعات 112 اور 224۔اے شق بی کے تقاضوں کے تحت دونوں صوبوں میں نگران حکومتوں نے 90 دن کے اندر اندر ان اسمبلیوں کے انتخابات کرانے ہیں جو بہرحال ان اسمبلیوں کی پانچ سالہ مدت کیلئے ہونگے جبکہ قومی اسمبلی اور باقیماندہ دو صوبائی اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری کرنے کا حکمران اتحاد کی جانب سے عزم ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس طرح بیک وقت تمام اسمبلیوں کے انتخابات کی روایت برقرار نہیں رہ پائے گی اور حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے سیاسی کھینچا تانی کا سلسلہ برقرار رہے گا جس کے باعث سیاسی استحکام مسلسل دائو پر لگا رہے گا۔ بہتر تو یہی تھا کہ سیاسی استحکام کی خاطر تمام اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے دی جاتی مگر محاذآرائی کی سیاست نے اسکی نوبت نہیں آنے دی۔ اب دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ پنجاب اور خیبر پی کے کے نگران سیٹ اپ پر متعلقہ فریقین باہم متفق ہو جائیں۔ اس سلسلہ میں پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کیلئے جن تین تین ناموں پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے غور کیا گیا ہے‘ ان میں سابق بیوروکریٹ ناصر کھوسہ پر دونوں جماعتوں کے متفق ہونے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی نے جو تین نام فائنل کئے ہیں ان میں ناصر کھوسہ کے علاوہ نواز سکھیرا اور نصیر خان شامل ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ کے دو سابق ججوں جواد ایس خواجہ اور خلیل رمدے کے علاوہ ناصر کھوسہ کے نام پر بھی غور کر رہی ہے۔ اگر ناصر کھوسہ دونوں پارٹیوں کیلئے قابل قبول ہیں تو پھر ان پر متفق ہونے کی صورت میں معاملہ پارلیمانی کمیٹی اور الیکشن کمیشن تک جانے کی نوبت ہی نہیں آئیگی جس کیلئے بعض ذرائع کے مطابق عمران خان کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اسی طرح خیبر پی کے کے نگران سیٹ اپ کیلئے بھی افہام و تفہیم سے فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کم از کم سیاسی درجہ حرارت میں تو کمی آئیگی۔ بصورت دیگر سیاسی رسہ کشی جاری رہے گی تو سسٹم کے استحکام کی کبھی نوبت نہیں آپائے گی۔