بالآخر سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ بغیر کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کے اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ ان انتخابات کا انعقاد یقینا ایک خوش آئند امر ہے اور اس سے عوام کا جمہوریت پر اعتماد مستحکم ہوگا۔ اتوار کو ہونے والے ان انتخابات کے سلسلے میں کراچی اور حیدر آباد ڈویژن کے 16 اضلاع میں پولنگ ہوئی۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق، پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے رات گئے تک حیدر آباد ڈویژن میں 3601 میں سے 726 نشستیں جیت کر میدان مار لیا جبکہ 56 آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی اور پاکستان تحریکِ انصاف 50 سیٹوں پر کامیاب ہوئی۔ غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج سے پتا چلتا ہے کہ کراچی کی 246 یونین کونسلوں میں سے 15 پر پیپلزپارٹی، 12 پر جماعت اسلامی اور 10 پر پی ٹی آئی جیت کر آگے رہی جبکہ ایک آزاد امیدوار بھی جیت گیا۔
ان انتخابات میں ووٹرز ٹرن آؤٹ تو بہت کم رہا لیکن ان کے پُر امن انعقاد پر الیکشن کمیشن اور سندھ کی انتظامیہ واقعی مبارک باد کی مستحق ہیں۔ الیکشن کمشنر سندھ اعجاز انور چوہان کا کہنا ہے کہ فرسٹ فیز کے مقابلے میں دوسرا مرحلہ خوش اسلوبی سے پیش آیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر انتخابات میں شکایات آتی ہیں۔ ادھر، چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے بلدیاتی انتخابات کے کامیاب انعقاد پر صوبائی حکومت سندھ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور وفاقی وزارت داخلہ کو مبارکباد دی ہے اور الیکشن عملے کے ساتھ مکمل تعاون پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ان انتخابات کے انعقاد کو جمہوریت کے لیے نیک شگن قرار دیا۔
پاکستان میں شاید کوئی بھی انتخاب ایسا نہیں ہوتا جس میں ہارنے والا اپنی شکست تسلیم کر لے، اسی لیے کہا جاتاہے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں جیت اور ہار نہیں بلکہ جیت اور دھاندلی ہوتی ہے۔ کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی جی یو آئی (ف) نے وفاق میں اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام عائد کیا۔ جے یو آئی (ف) کے رہنما قاری عثمان نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ پولنگ سٹیشنز پر عملے کو رات تک پہنچنا تھا جو نہیں پہنچا، تین تین گھنٹے تاخیر سے پولنگ کا عملہ پہنچا اور الیکشن ہوا۔ قاری عثمان نے مزید کہا کہ پہلے بھی کہتے تھے سندھ کی حکمران جماعت سب کر چکی ہے، ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا، یہ نہ ہو کہ تمام جماعتیں الیکشن کو مسترد کر دیں، تقریباً ہر یونین کونسل میں دھاندلی کی شکایات ملی ہیں۔
دوسری جانب، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پی پی نے بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا میدان مار لیا ہے۔ اس حوالے سے سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر پیپلز پارٹی کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ جام شورو میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 15 نشستیں پی پی نے جیت لیں۔ بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے میں کامیابی پر پی پی کے کارکنوں کی جانب سے جشن منایا گیا۔ اس حوالے سے سندھ کے صوبائی وزیر جام خان شورو کے گھر پر جیالوں نے رقص کیا اور مٹھائی تقسیم کی۔ حیدر آباد میں میئر کے لیے صوبائی وزیر جام خان شورو کے بھائی کاشف شورو متوقع امیدوار ہیں۔
ادھر، جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے الیکشن کے نتائج میںتاخیر پر عوام کو پولنگ اسٹیشنوں کا گھیراؤ کرنے کا حکم دیدیا۔ ان کا کہنا تھا یہ ہمارا آئینی، جمہوری اور قانونی حق ہے کہ ہمیں ہماری گنتی کر کے نتائج فراہم کیے جائیں لیکن چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کے واضح احکامات کے باوجود ہمیں فارم 11 اور 12 فراہم نہیں کیے جا رہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت کے کچھ ڈپٹی کمشنرز نتائج جاری کرنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں، نتائج جاری نہ ہوئے تو دھرنے شروع کر دیں گے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن کا کہنا تھا کہ میں انتخابات کے حوالے سے کسی قسم کا بڑا دعویٰ کرنے میں محتاط ہوں لیکن جو نمبرز بتا رہے ہیں ان نمبرز کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی کراچی میں تقریباً ہر جگہ پہلے نمبر پر آئی ہے۔
سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابی عمل پر اعتراضات اور الزامات کوئی نئی بات نہیں لیکن کراچی اور حیدر آباد کے ڈویژن کے 16 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد واقعی ایسا معاملہ ہے جو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے مختلف دھڑوں نے متحد ہو کر ان انتخابات کو رکوانے کی کوشش کی اور انتخابی عمل کا بائیکاٹ بھی کیا مگر اس کے باوجود انتخابات ہوگئے۔ اب سب جماعتوں کو نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ انتخابات کا سال ہے اس لیے اب سیاسی جماعتوں کی توجہ عام انتخابات پر ہونی چاہیے۔ مزید یہ کہ بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا وسیلہ بنتے ہیں، لہٰذا ان کے انعقاد کی راہ میں روڑے اٹکانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔