دنیا میں ناانصافی عروج پا رہی ہے۔ طاقت شدت کے ساتھ آج بھی اپنا لوہا منوا رہی ہے۔ طاقتور ملک کسی اصول ضابطے اخلاقیات کی پرواہ کیے بغیر جس ملک کی چاہتے ہیں اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ وہ اپنے تئیں جو مرضی کر لیں کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن کوئی غریب ریاست غلطی نہ بھی کرے تو اس پر خود ساختہ جواز گھڑ کر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ امیر ملک غریب ملکوں کے وسائل ہڑپ کر رہے ہیں، کمپنیاں ایک دوسرے میں ضم ہو کر دولت سمیٹ رہی ہیں، دنیا کے وسائل اور دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں جا رہی ہے، عام آدمی کے چھوٹے موٹے کاروبار بڑی بڑی کمپنیاں ہڑپ کرتی جا رہی ہیں، سرمایہ داروں نے چھوٹے کاروبار چھین لیے ہیں۔ ایسی ایسی گیمنک ہو رہی ہیں کہ دنیا بھر میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ امیر بیٹھے بٹھائے اپنی دولٹ ملٹی پلائی کرکے دوگنی چوگنی کرتے جا رہے ہیں جبکہ غریب سے روزگار تک چھینا جا رہا ہے۔ وہ دن رات محنت کرنے کے باوجود غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہیاور زیادہ تر لوگ روٹی روزی کی فکر سے ہی آزاد نہیں ہو پا رہے۔ امیروں کے کتے بلیاں اور پالتو جانور بھی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ غریب کا بچہ خوراک کی کمی اور ادویات کی عدم دستیابی کے باعث ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ دنیا میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے افراتفری، غیریقینی، جرائم اور بیراہ روی کو فروغ دیا ہے۔ رہی سہی کسر ٹیکنالوجی، قدرتی آفات، بیماریاں،موسم، جنگیں اور پابندیاں پوری کر رہی ہیں۔ روایات اخلاقیات اور انسانی تقاضوں کی جگہ بھی روپیہ پیسہ لے رہا ہے۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ بعض شخصیات اور کمپنیاں اتنی مالدار ہو گئی ہیں کہ ملکوں کی دولت سے زیادہ دولت ان کے پاس آچکی ہے۔ اس طرح یہ لوگ حکومتوں اور دنیا کے دیگر معاملات پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ آج کے جدید دور میں آقا اور غلام کا نیا تصور جنم لے رہا ہے۔ عام آدمی کے لیے روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں جبکہ خواص کے لیے دولت اکھٹی کرنے کے سارے راستے سجے ہوئے ہیں۔ غربت کے خاتمہ کے لیے کام کرنے والے ایک برطانوی ادارے آکسفیم کی رپورٹ نے تو چونکا دیا ہے جس کے مطابق پچھلے تین سال میں دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی مزید غریب ہو گئی ہے جبکہ پچھلے تین سال میں 5امیر لوگوں کی دولت دوگنا بڑھ گئی ہے۔ اس پانچ کے ٹولے کی دولت میں ہر گھنٹہ ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 8امیر ترین افراد کے پاس دنیا کی آدھی آبادی کی دولت کے برابر دولت ہے یعنی ایک فرد کے پاس 50 کروڑ لوگوں کے وسائل کے برابر وسائل ہیں۔ دنیا میں اس وقت 1810 ارب پتی موجود ہیں اور ان کے پاس جو دولت ہے وہ دنیا کے 70 فیصد عوام کی دولت کے برابر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر دنیا کے صرف دوہزار بندوں سے دولت لے کر دنیا میں تقسیم کر دی جائے تو دنیا میں کوئی غریب نہ رہے۔ دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوس صرف اپنی ذاتی دولت سے پاکستان کے تین سال تک کے اخراجات اٹھا سکتے ہیں۔ دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کر کے پوری دنیا کو اذیت میں مبتلا رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔ کوئی ایسا نظام وضع ہونا چاہیے کہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ختم ہو سکے۔ ارب پتیوں پر قدغن لگا کر ان کی دولت کا ایک خاص حصہ غربت کے خاتمہ کیلئے وقف ہونا چاہیے۔ دنیا کے امیروں کے اپنے کھیل ہوں گے لیکن ہم جب اپنے ملک کے امیر زادوں کی بڑھتی ہوئی دولت کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل سہولتیں امیروں کی جائیدادوں میں اضافہ کا باعث بن رہی ہیں اور غریب کو زندگی گزارنے کے لیے محدود وسائل پر بھی سپیڈبریکر لگائے جا رہے ہیں۔ چھوٹے کاروبار بند ہو رہے ہیں جبکہ بڑے کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے گلی محلوں میں اکثر پرچون کی دوکانیں نظر آتی تھیں اب بڑے بڑے شاپنگ مال بن رہے ہیں لوگ محلے کی پرچون کی دوکان سے سامان خریدنے کی بجائے شاپنگ مال سے سامان خریدنا پسند کرتے ہیں۔ چھوٹی دوکانیں ختم ہو رہی ہیں ان کی جگہ ایکڑوں اور میلوں میں پھیلے مال لے رہے ہیں۔ پاکستان میں پراپرٹی کا کاروبار پچھلے 30 سال میں عروج پر ہے۔ لوگ جگہ جگہ پراپرٹی ڈیلرز کے آفس کھول کر بیٹھے ہوئے تھے وہ سودے کروا کر کمشن حاصل کرتے تھے۔ اب ان کی جگہ انویسٹر نے لے لی ہے۔ اب سرمایہ کار سستے داموں خود سودا خریدتا ہے اور پھر اس کو اپنی مرضی سے بیچتا ہے۔ بڑی بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنیاں آگئی ہیں اور سارے معاملات سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ اوپر سے ہمارے معاشرے میں دیہاڑی لگانے کے کلچر نے تو کاروبار تباہ کرکے رکھ دیے ہیں۔ کبھی مصنوعی شارٹیج کرکے شوگر مافیا دیہاڑی لگا لیتا ہے تو کبھی آٹا مافیا دیہاڑی لگا لیتا ہے۔ کبھی ٹماٹر اور کبھی پیاز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبوں پر بھی بڑے سرمایہ داروں کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔ اسی طرح فوڈ چین اور فرنچائز کے کاروبار نے چھوٹے کاروباری حضرات کو فارغ کر دیا ہے۔ برانڈز کی دوڑ نے سارے معاملات بڑے بڑے سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرکوز کر دیے ہیں جس سے دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آگئی ہے۔ وہ کبھی ڈالر اور سونے کے اتار چڑھاؤ میں مال کما لیتے ہیں تو کبھی پراپرٹی میں ڈبل کر لیتے ہیں لوٹ مار کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے جبکہ رزق حلال کمانے والوں کا ناطقہ بند کیا جا رہا ہے جس سے دنیا تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اگر دنیا میں سکون چاہیے تو پھر معاشی انصاف لانا ہو گا ورنہ دنیا کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکے گا۔