بلے کا جھٹکا اور سیاسی اثرات 

پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان الیکشن کمیشن کے درمیان محاذ آرائی اور تناؤ اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے- پاکستان کی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر 2024ء کے فیصلے کو درست قرار دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف نے چونکہ آئین اور قانون کے مطابق جماعتی انتخابات نہیں کروائے اس لیے اس کا انتخابی نشان بلا واپس لیا جاتا ہے- تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی- پشاور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے تحریک انصاف کی اپیل سماعت کے لیئے منظور کرتے ہوئے اسے بلے کا انتخابی نشان الاٹ کرنے کا حکم جاری کردیا - الیکشن کمیشن پاکستان نے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس کی سماعت دو رکنی بینچ نے کی اور فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ جماعتوں کے اندرونی انتخابات پر سوال اٹھائے اور تکنیکی بنیاد پر کسی سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دے- پاکستان کے ہر شہری کو سیاسی جماعت بنانے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے اور اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دینے کا بنیادی حق حاصل ہے جسے سلب نہیں کیا جاسکتا - پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا الاٹ کیا جائے- الیکشن کمیشن پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی بجائے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا- چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے  جسمیں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے،  الیکشن کمیشن کی اپیل پر طویل سماعت کی- سپریم کورٹ نے اپنے مختصر حکم میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آئین اور قانون کے مطابق درست قرار دیتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا - سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہوگئی- تحریک انصاف کے لیے یہ بہت بڑا اور گہرا جھٹکا ہے جس کے مضر اثرات ملکی سیاست پر مرتب ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا ہے کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں اندرونی پارٹی انتخابات کو عام انتخابات کی طرح اہمیت دیں تاکہ پاکستان میں آمرانہ رجحانات فروغ نہ پا سکیں - بادی النظر میں تحریک انصاف کے وکلاء  عدالت کے سامنے ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکے جن سے ثابت ہو سکے کہ تحریک انصاف نے قوانین کے مطابق پارٹی انتخابات کرائے- تحریک انصاف کے کارکنوں نے الیکشن کمیشن میں شکایت درج کروائی کہ ان کو پارٹی انتخاب لڑنے کا حق نہیں دیا گیا- اصولی طور پر عدلیہ کا موقف درست ہے کہ سیاسی جماعت اندرونی طور پر بھی جمہوری ہونی چاہئے مگر سوال یہ کہ اس جمہوری اصول کا اطلاق صرف ایک سیاسی جماعت پر کیوں کیا جائے جو امتیازی سلوک کے زمرے میں آتا ہے- سماعت کے دوران نامور بیرسٹر حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ آئین کے آرٹیکل نمبر 2 اے کے مطابق محض تکنیکی بنیادوں پر عوام کو حق رائے دہی کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرنے سے محروم نہیں کیا جاسکتا- تحریک انصاف کو اگر بلے کا انتخابی نشان نہ دیا گیا تو پانچ کروڑ عوام اپنی پسند کی جماعت کو ووٹ دینے کے بنیادی حق سے محروم ہو جائیں گے- حامد خان نے معتبر عدالتی حوالے دے کر موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمشن کی اپیل قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ وہ متاثرہ فریق نہیں ہے-چند روز قبل سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں تا حیات نا اہلی ختم کرکے میاں نواز شریف کو انتخابی میدان میں اترنے کا موقع فراہم کر دیا تھا- تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھین کر تحریک انصاف کے امیدواروں کو سیاسی طور پر معزور اور اپاہج بنا دیا گیا ہے- وہ پارٹی ڈسپلن سے آزاد ہو چکے ہیں اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے مختلف انتخابی نشانات پر انتخاب لڑیں گے- کئی انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کے ایک سے زائد امیدوار ہوں گے پارٹی کے ووٹ تقسیم ہونے سے مخالف جماعتوں کو فائدہ ہو گا-انتخابات کے بعد تاریخ کی بد ترین ہارس ٹریڈنگ ہوگی - تحریک انصاف خواتین اور اقلیتوں کی خصوصی نشستوں سے بھی محروم ہو جائے گی جبکہ عمران خان پہلے ہی خصوصی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں انتخابات میں حصہ لینے کے اہل نہیں رہے- تحریک انصاف سینٹ کے انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے سکے گی - اس کے آزاد امیدواروں کو کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا پڑے گی- بلے کے انتخابی نشان کے بغیر ہونے والے انتخابات پاکستان اور عالمی رائے عامہ کی نظر میں متنازعہ رہیں گے- ایسے یک طرفہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت سیاسی اور معاشی استحکام لانے سے قاصر رہے گی اور مبصرین کے مطابق ایک سال کے بعد دوبارہ انتخابات کرانے پڑیں گے جن پر غریب اور مقروض قوم کے اربوں روپے دوبارہ خرچ کیے جائیں گے- بیلٹ پیپر پر بلے کا نشان نہ ہونے سے مسلم لیگ نون اور پی پی پی کے امیدواروں کو سیاسی فائدہ پہنچے گا- عمران خان اور تحریک انصاف عوام کی نظروں میں مظلوم ہیں۔ وہ اگر انتخابات میں اکثریت حاصل نہ بھی کر سکیں تو بھی عوام کی عمران خان سے محبت کم نہیں ہو گی- تحریک انصاف کی پارلیمانی حیثیت کمزور ہو جائے گی البتہ سیاسی میدان میں عمران خان مقبول لیڈر کی حیثیت سے موجود رہیں گے-تحریک انصاف کا پارٹی دستور کے مطابق وقت پر جماعتی انتخابات نہ کرانا سنگین غلطی تھی جس کا خمیازہ پوری جماعت کو بھگتنا پڑا -

ای پیپر دی نیشن