نئی اسمبلی اور پارلیمانی طرزِ سیاست 

Jan 17, 2024

سعد اختر

 نیشنل اسمبلی کا ایوان 342ارکان پر مشتمل ہے۔ جس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ یہ ایوان پاکستان کی پارلیمان کا ایوانِ زیریں کہلاتا ہے۔ نیشنل اسمبلی میں منعقدہ اجلاس کی صدارت اسپیکر کرتا ہے۔ عدم موجودگی ہو تو ڈپٹی اسپیکر کو اجلاس کی صدارت کرنا پڑتی ہے۔ چیئرمین سینیٹ کی عدم موجودگی میں ملک کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے بھی فرائض اور ذمہ داریاں اسپیکر کو تفویض ہوتی ہیں۔ انتخابات میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ عموماً وزیراعظم منتخب ہوتا ہے جو اسمبلی میں قائدِ ایوان کہلاتا ہے۔ جبکہ سیکنڈ پوزیشن حاصل کرنے والی جماعت کا سربراہ قائدِ حزب اختلاف بن جاتا ہے جو آئین میں دئیے گئے رولز اور قاعدے کے مطابق اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کرتا ہے۔
پارلیمانی سیاست اور نظامِ حکومت میں قائدِ حزب اختلاف کا کردار نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ جو آئین سازی اور دیگر معاملات میں حکومت کو ٹف ٹائم دیتا ہے۔ مؤثر اور مضبوط اپوزیشن ہو تو حکومت کو من مانی کا موقع نہیں ملتا۔ مضبوط اپوزیشن لیڈر کی موجودگی میں حکومت حتی المقدور غیر آئینی کاموں سے احتراز کرتی ہے جس سے امورِ مملکت اچھے طریقے سے چلنے لگتے ہیں۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمانی سیاست میں اپوزیشن کے کردار کو کسی طور بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، وہ بڑا اہم ہے۔
 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی چھ ماہ قبل تحلیل ہو چکی ہے۔ نئے انتخابات کی تیاریاں ہیں۔ جس کی سرگرمیاں شروع ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں 8فروری 2024ء کو ہونے والے انتخابات کا حصّہ اور انتخاب لڑ رہی ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ پاکستان چار اکائیوں پر مشتمل ہے جس میں صوبہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان شامل ہیں۔ صوبوں کی اپنی اسمبلیاں ہیں جو صوبائی اسمبلیاں کہلاتی ہیں۔ ہر صوبے کی اسمبلی کے ارکان کی تعداد مختلف ہے۔ نیشنل اسمبلی کے رولز کی طرح صوبائی اسمبلیوں کے بھی اپنے رولز ہیں جن کے تحت معاملات چلائے جاتے ہیں۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کے نگران ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بے بہا پاورز ہوتی ہیں۔ اور پروٹوکول بھی وزیر اعلیٰ یا پرائم منسٹر کے پروٹوکول جیسا ملتا ہے۔ کوئی بھی ممبر اسمبلی اگر کسی فوجداری یا سیاسی مقدمے میں زیر حراست ہو تو اسپیکر کو پروڈکشن آرڈر کے ذیعے اْسے جیل سے اسمبلی میں لانے یا طلب کرنے کا پورا اختیار حاصل ہوتا ہے جو آئین نے اْسے تفویض کر رکھا ہے۔ اسپیکر کے جاری پروڈکشن آرڈر کے راستے میں عدالتیں بھی حائل نہیں ہوتیں۔ ان کے آرڈرز کی پوری بجا آوری کی جاتی ہے۔
لیڈر آف دی اپوزیشن آئین میں درج رولز کے مطابق کئی سہولتوں کا حق دار ہوتا ہے۔ جو اْسے حکومت کی جانب سے دی جاتی ہیں۔ پڑھی لکھی خواتین بھی بہت بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں آنے لگی ہیں۔ اْن کے آنے سے اچھی روایات قائم ہوئی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی پارلیمانی ایوانوں کا ماحول بہتر ہو گیا ہے۔
آج ہم بات کریں گے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے حقیقی کردار پر۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1988ء سے 1998ء تک کا دورانیہ پارلیمانی اعتبار سے بہت اچھا اور بہتر تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو نواز شریف اپوزیشن لیڈر تھے۔ اِسی طرح نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے حقیقی اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کیا۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر ہر بات کھل کر اور اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت پٹڑی سے نہیں اتری۔ خراماں خراماں اپنا سفر طے کرتی رہی۔
کہتے ہیں لولی لنگڑی جمہوریت بھی ہو تو آمریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ 1998ء کے بعد کا دور دیکھیں تو ہمیں پارلیمانی سیاست میں تنائو کی کیفیت نظر آتی ہے۔ آپسی چپقلش و تنازعات میں تیزی بلکہ تصادم کی خوفناک صورت محسوس ہوتی ہے۔ ہم ایک جمہوری ملک ہیں جس نے پارلیمانی نظامِ سیاست کے تحت چلنا اور اپنا سفر طے کرنا ہے۔اس حقیقت کو بھی ماننا ضروری ہے کہ پارلیمانی سیاست ’’ڈی ریل‘‘ ہو گی تو پورے کا پورا نظام ہی الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ ہم نے چار بار فوجی ڈکٹیٹر شپ دیکھی۔ جنہوں نے تین دہائیوں تک آمریت مسلط کئے رکھی اور اپنے اقدامات سے پارلیمانی نظام سیاست کو گھائل کر دیا۔ آئین کے بخئیے ادھیڑ دئیے۔ اسے سلب کر کے انسانی حقوق کی بھی بیدردی سے پامالی کی۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں جمہوریت سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ جسے بہتر اور مضبوط کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہونی چاہیے۔
پارلیمانی سیاست میں، جہاں کچھ لوگ حکومت کرتے ہیں وہاں اپوزیشن کا بھی دائمی کردار ہے۔ جس پارلیمانی سیاست میں مضبوط اپوزیشن ہوتی ہے وہاں طرزِ حکومت اور سیاست مثالی ہوتا ہے۔ امورِ مملکت بہتر چلتے ہیں۔ گزشتہ 16ماہ کے دورِ حکومت میں پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران جب میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان تھے، راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر بنایا گیا۔ جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اگرچہ فیصل آباد سے کامیاب ہوئے تھے لیکن پارٹی لیڈرشپ سے شدید اختلافات کے باعث پارٹی سے علیحدگی اختیار کی اور پھر جہانگیر ترین گروپ میں چلے گئے۔ جہاں سے اڑان بھر کر میاں شہباز شریف سے اپنی دوستی اور اچھے تعلقات کی بنیاد پر اپوزیشن لیڈر بن گئے۔16ماہ کی حکومت کے دوران راجہ ریاض نے فرینڈلی اپوزیشن لیڈر کا رول ادا کیا، ایسا رول ادا کرتے ہوئے کوئی مضائقہ   نہ  سمجھا۔ ایسی خبروں کے بعد بھی کہ حکومت کے خاتمے پر وہ ن لیگ میں شمولیت اختیار کر لیں گے ، پی ٹی آئی اور عوام الناس کی سخت تنقید کے باوجود انہوں نے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ نہیں چھوڑا۔ حکومت کے خاتمے کے بعد انوارالحق کاکڑ کو نگران وزیراعظم کے انتخاب کافیصلہ میاں شہباز شریف نے کیا جبکہ راجہ ریاض نے ہاں میں ہاں ملائی۔ سب کو معلوم ہے راجہ ریاض حقیقی اپوزیشن لیڈر نہیں تھے۔
اپوزیشن لیڈر آئین میں درج اپنے رول کا ذمہ دار اور رولز کا پہریدار ہو تو پارلیمانی طرزِ سیاست میں استحکام آ جاتا ہے۔ تمام پارلیمانی امور اچھے طریقے سے چلنے لگتے ہیں۔ حکومت کو کسی غلط یا غیر آئینی کارروائی کا موقع نہیں ملتا۔ وہ آئینی حدود میں رہ کر سارے کام سرانجام دیتی ہے۔ اسی لیے اپوزیشن لیڈر کا مضبوط، باکردار اور آئین کے مطابق رولز کا پاسدار ہونا ازحد ضروری ہے۔
8فروری کے عام انتخابات کے بعد نئی حکومت کے قیام کا عمل اسی ماہ (فروری) کے وسط تک مکمل ہو جائے گا۔ نئے ممبران پر مشتمل وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی تشکیل ہو گی۔طریقۂ کار کے مطابق سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت کا سربراہ نیشنل اسمبلی میں قائدِ ایوان اور وزیراعظم منتخب ہو جائے گا جبکہ سیکنڈ نمبر پر آنے والی جماعت اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔
ماضی میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ مستقبل میں بھی ایسا ہی ہو گا۔ حکومت جس کی بھی بنے ، جو بھی جماعت برسراقتدار آئے۔ اْس کا اولین فریضہ اور ذمہ داری یہی ہونی چاہیے کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر حالات میں بہتری لائے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنا اپنا رول صحیح طریقے اور ایمانداری کے ساتھ انجام دے۔ پارلیمانی جمہوریت کا یہی حسن اور اچھی بات ہے کہ سب کو کھل کر اظہار رائے کا موقع میسر آنا چاہیے۔ ذاتیات پر حملے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جستجو میں حد سے گزر جانا کسی طرح بھی لائق تحسین نہیں۔ وقت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمیں پارلیمان میں اچھی روایات قائم کرنی چاہئیں۔ گفتگو میں شائستگی پیدا کر لی اور قانون کی پاسداری پر عمل پیرا ہو گئے تو ہماری پارلیمانی سیاست ملک و قوم کے لیے بڑی مثالی ہو سکتی ہے۔

مزیدخبریں