بدھ، 5رجب المرجب ،  1445ھ،17 جنوری2024ء

رات 9 بجے کے بعد کوئی بچہ سڑک پر بھیک مانگتا نظر نہ آئے۔ پشاور ہائی کورٹ۔
تو کیا رات 9 بجے سے پہلے بچوں کو بھیک مانگنے کی اجازت ہو گی۔ کیا بچوں سے بھیک منگوانا جرم نہیں۔ ازخود تو کوئی بچہ بھیک نہیں مانگتا یہ سب بھکاری مافیا کا شکار وہ بچے ہیں جنہیں اغوا کر کے یا کرائے پر لے کر یہ مافیا سڑکوں چوراہوں پر کھڑا کر کے بھیک منگواتا ہے۔ رات کو اکثر سخت سردی میں پھول یا ٹافی یا بال پین فروخت کرنے والے یہ معصوم بچے اسی مافیا کے ظلم کا شکار اور ان کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوتے ہیں۔ کئی مقامات پر تو نعصوم بچیوں سے بھی جبراً بھیک منگوائی جاتی ہے۔ ان کی حالت ان بچوں سے زیادہ بری ہے انہیں اکثر غلط لوگ غلط کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بچوں سے بھی زیادتی کے واقعات عام ہیں جس معاشرے میں گھروں؛ دکانوں ، فیکٹریوں ، گیراجوں، ہوٹلوں میں کام کرنے و الے بچے محفوظ نہ ہوں وہاں بھکاری بچوں کے تحفظ کی فکر کس کو ہو گی۔ انتظامیہ اگر چاہے تو ان بچوں کو چائلڈ ہومز میں رکھ سکتی ہے مگر بھکاری مافیا بہت بااثر ہے وہ انتظامیہ کی ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیتے ہیں یہ بھکاری بچے اور بچیاں چند روز غائب رہنے کے بعد پھر واپس اپنے کام پر آ جاتی ہیں۔ 
قانوناً پابندی کے بعد تو دن ہو یا رات کسی بچے کو جبری ملازمت یا بھیک مانگنے کی اجازت نہیں مگر ہمارے ہاں قدم قدم پر قانون کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور یہ پھول جیسے  بچے بھیک مانگتے یا بیگار کرتے نظر آتے ہیں وہ بھی صرف چند سو روپوں کی۔ اس سے زیادہ ان کی تذلیل ہوتی ہے اور انہیں مار پیٹ و زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھر ہو یا دکان، سڑک ہو یا چوراہا کہیں بھی ان بچوں کو تحفظ حاصل نہیں ان کی عزت نفس اور معصومیت کو بے دردی سے کچلا جاتا ہے۔ 
رام جی خواب میں آئے اور کہا میں مندرنہیں جائوں گا۔ لالو پرساد کے بیٹے کا دعویٰ
ہندو روایات اور کتھا?ں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ شری رام چندر ایک بڑی نرم دل اور انسانوں سے محبت کرنے والی شخصیت تھی۔ وہ ذات پات اونچ نیچ پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے ساری زندگی انصاف کے ساتھ بسر کی بڑے سے بڑے دشمن بھی انہیں انصاف کی راہ سے نہ ہٹا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور کو ہندو اتہاس میں سب سے بہتر مانا جاتا ہے۔ اب بدقسمتی سے جو لوگ ان کے رام راج کانعرہ لگاتے پھرتے ہیں،  شری رام کی جے کہتے پھرتے ہیں۔ وہ ان کے حقیقی پیغام سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ ہندو توا کے نام پر انہوں نے پورے بھارت میں تباہی پھیلا دی ہے۔ یہ لوگ شری رام کے نہیں اصل میں راون کے پیروکار بن چکے ہیں۔ بے گناہ اقلیتوں کا قتل عام ان کی عبادتگاہوں کی مسماری رام کا نہیں راون کا فلسفہ ہو سکتا ہے۔ اس فلسفے کے تحت ایودھیا میں بابری مسجد کو گرا کر وہاں رام مندر بنایا جا رہا ہے۔ بے ایمانی، زور زبردستی ناانصافی کی اس سے بری مثال شاید ہی کوئی اور مل سکے۔ اب ایک طرف حکومتی پوسٹر شائع ہو رہے ہیں کہ رام جی طیارے سے باہر نکل کر رام مندر کی طرف جا رہے ہیں تو دوسری طرف بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادیو کے بیٹے نے کہا ہے کہ انہیں  ان کے خواب میں آ کر رام جی نے کہا ہے کہ وہ مندر نہیں جائیں گے۔ اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ انصاف پسند شری رام  بھی اس ناانصافی والے مندر میں جانا پسند نہیں کریں گے جس کی بنیادوں میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا لہو شامل ہے اور جسے زبردستی طاقت کے بل بوتے پر قائم کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایک انصاف پسند حکمران سے ایسے ہی فیصلے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ 
امریکہ اسرائیل کی حمایت سے باز آ جائے تو ا س کے جہازوں پر حملے نہیں ہوں گے۔ ایران۔ 
یہ ایک نہایت معصومانہ خواہش ہے۔ جس پر امریکہ کبھی عمل نہیں کر پائے گا کیونکہ وہی تو ہے جس نے اسرائیل کو اس خونریزی کی اجازت دی ہوئی ہے۔ اس کی شہہ پر اسرائیل نے غزہ کو مقتل بنا دیا ہے۔ امریکہ بھلا اسرائیل کی حمایت سے باز کیوں آئے۔ اب چاہے اسے ایران کی نیک نیتی کی پیشکش کہا جائے مگر حقیقت میں یہ 
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں 
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔
والا معاملہ ہے۔ امریکہ کسی کی خواہش پر اسرائیل کی حمایت سے کبھی دستبردار نہیں ہونے کا۔ اس میں سارا قصور مسلم حکمرانوں کا بھی ہے۔ اگر وہ سخت گیر موقف اختیار کرتے، یکجہتی کا مظاہرہ کرتے تو شاید ا س کا کچھ اثر ہوتا مگر امریکہ جانتا ہے کہ مسلم امہ کا اتحاد ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ تو یمن کے حوثیوں کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے بے سروسامانی کی حالت میں بھی بحیرہ احمر  اور خلیج عدن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر خوف طاری کر دیا ہے اور وہ اپنے بحری جہازوں کی حفاظت کے لیے پاگل ہو گئے ہیں اور انہوں نے، خاص طور پر امریکہ اور اس کے پٹھو برطانیہ نے یمن کے کئی شہروں پر بمباری کر کے اپنے بدلے کی آگ بجھائی ہے۔ مگر اس بمباری سے بھی یمن والوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ اس وقت یمن اور جنوبی افریقہ جس دلیری کے ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ا س پر عالمی میڈیا حیران ہے کہ موت و بربادی کا خوف بھی انہیں پریشان نہیں کر رہا۔ اگر چند اور اسلامی ممالک بھی ایسی ہی حریت کا حمیت کا مظاہرہ کریں تو غزہ میں تباہی و بربادی کا کھیل روکنے میں آسانی ہو سکتی ہے مگر وہی بات۔
جو تھا نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا 
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔
شاید ہم سب کے ضمیر سو رہے ہیں۔ یہ بھول کر کہ کل اگر ہماری باری آئی تو کیا ہو گا…
اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ انتظامیہ بے بس
وزیر اعلیٰ پنجاب بے شک شہروں کو بنا سنوار دیں۔ ان کی شکل بدل دیں مگر خدارا اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کی حالرِ زار پر بھی غور کریں۔ ان کی زندگی نہ سہی ان کے حالات ہی بدل دیں۔ جس طرح وہ لاہور اور دیگر شہروں کو سجا رہے ہیں اسی طرح شہریوں کی زندگی بھی سنوارنے پر توجہ دیں۔ ہسپتالوں میں ان کے طوفانی دورے بجا اس سے وہاں کے حالات بھی بدلتے نظر آنے چاہئیں جو سچ کہیں تو نظر نہیں آ رہے۔ ہماری انتظامیہ حاکمان وقت کو ماموں بنانے میں ماہر ہے۔ وہ کئی دہائیوں سے یہ کام کرتی آ رہی ہے۔ حاکم تو بدلتے رہتے ہیں وہ یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے اب وزیر اعلیٰ اور دیگر وزراء  کے لیئے  وقت بہت کم رہ گیا ہے ان چند ہفتوں میں اگر وہ اشیائے خورد و نوش کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کو واپس زمین پر لانے کی کوشش کریں تو عوام ان کے لیئے دست بہ دعا رہیں گے۔ کیا معلوم کسی مظلوم کی دعا قبول ہو جائے۔ سبزیاں، دالیں اس وقت ڈبل کیا ٹرپل کے فگر کو چھوڑ رہی ہیں کوئی عام سبزی یا دال بھی 250 روپے سے نیچے دستیاب نہیں ، روزگار ہے نہیں، دیہاڑی لگتی نہیں تو غریب کیا کریں۔ اب ذرا حکمران سبزی منڈیوں ، تجارتی منڈیوں کی بھی خبر لیں جہاں قانون کا بول بالا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ وہاں بڑی توند والی اشرافیہ نے جنہیں تاجر کا نام دیا جاتا ہے۔ ا ندھیر نگری مچا رکھی ہے۔ عذاب غریب لوگ جھیل رہے ہیں۔ سرکاری نرخنامے نہ وہاں چلتے ہیں نہ دکانوں پر حتیٰ کہ ریڑھی والے بھی اسے بے کار پرزہ قرار دے کر پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں جہاں سے سرکاری ریٹ پر چیز ملتی ہے وہاں جا کر لے لیں۔ کیا اس کا سدباب ہو سکتا ہے یا صرف زبانی کلامی دعوے ہی ہوتے رہیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن