پی ٹی آئی کے واحد متحرک رہنما شیر افضل مروت کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ اوّل اوّل انہوں نے کراچی سے اپنی ہی پارٹی کے انتخابی امیدوار فتح کئے اور یہ کہہ کر ان کا پتہ صاف کر دیا کہ یہ تو ہمارے امیدوار ہی نہیں ہیں، ان پر ’’چار حرف‘‘ بھیجے اور شرکائے جلسہ نے تالیاں بجا کر گویا اعلان کیا کہ وہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ پھر ایوان صدر میں براجمان ایک صاحب کو رانگ نمبر کہہ کر ان کا پتہ ہی صاف کر دیا اور کہا کہ میں نے رانگ نمبر کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کی مخالفت کی تھی۔ گویا بیٹے کا پتہ بھی صاف۔ اب تیسری فتح انہوں نے پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات اور گریٹ خان کے بلند پایہ ثنا خواں روئوف حسن پر چڑھائی کر کے حاصل کی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا سیکرٹری اطلاعات دراصل لومڑی ہیں یعنی روباہ۔ شیر مروت کا تخلّص اگر ’’روبا افگن‘‘ رکھ دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے، شکار تو شکار ہے، چاہے شیر کا ہو چاہے لومڑی کا ہو۔
______
جن صاحب کو مروت صاحب نے لومڑی قرار دیا ہے، ایک رات قبل انہوں نے کسی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یہ انکشاف کیا تھا کہ مروت صاحب تو کبھی جیل میں جا کر گریٹ خان سے ملے ہی نہیں، یہ ان کی طرف سے بیانات کیسے دے سکتے ہیں۔ مروت صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا ہر بیان خان صاحب کی خصوصی ہدایت کے تحت دیا گیا بتاتے ہیں۔ مجھے خان صاحب نے کہا ہے کہ جائو جا کر یہ بیان دے دو۔روئوف حسن نے کہا کہ جیل میں جانے کی انہیں کبھی اجازت ہی نہیں ملی تو یہ کہاں جا کر خان صاحب سے ملتے ہیں؟
ہو سکتا ہے خان صاحب کاکوئی ہمزاد ہو جو مروت صاحب کو ملتا ہو۔ غیر مصدقہ لیکن تواتر سے ملنے والی روایات کے مطاق بنی گالہ میں ہر طرح کے ہمزادوں اور موکلوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے، کیا پتہ ان میں سے کوئی ہمزاد بنی گالہ سے اڑان بھر کر شیر مروت سے ملاقاتیں کرتا پھرتا ہو۔ ہوائی مخلوق ہے، ہر ایک کو تو نظر نہیں آ سکتی، اہلِ نظر ہی دیکھ سکتے ہیں اور شیر مروت کے اہل نظر ہونے میں کون شک کر سکتا ہے۔
______
مروت صاحب نے روباہ مذکور پر چار حرف ہی نہیں بھیجے، کچھ مزید ارشادات بھی ان کے بارے میں فرمائے جو ناقابل اشاعت ہیں۔ علاوہ ازیں یہ انتباہ بھی کیا کہ میں اپنے کارکنوں کو حکم دوں کہ وہ روباہ مذکورہ بالا کے چہرے پر کالک پھینک دیں تو وہ ہر جگہ ان کے منہ پر کالک پھینک دیں۔
مروت صاحب نے ہر جگہ ’’اس‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ خبر، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ لوگوں کے چہرے پر سیاہی پھینکنا پی ٹی آئی کے ضابطہ اخلاق کااوّلیں نکتہ ہے بلکہ سب نکتوں کی بنیاد ہے۔ دیکھئے، کارکن مروت صاحب کی اس آخری فرمائش پر کب عمل پیرا ہوتے ہیں۔
______
سیاہی پھینکنے کا سلسلہ، دوسری طرف چیف جسٹس تک دراز ہو چکا ہے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ایسی ایسی وڈیوز اپ لوڈ اور ایسی ایسی پوسٹیں شیئر اور ری ٹویٹ کر رہا ہے کہ خدا کی پناہ۔
اس مہم میں ٹی وی چینلز پر 2014ء سے براجمان روشن ستارے بھی شریک ہو گئے ہیں بلکہ بعضے تو ان میں اس سے بھی پرانے ہیں۔ ٹاک شوز میں چیف جسٹس سے استعفیٰ دینے کے مطالبات کئے جا رہے ہیں۔
یہ میڈیا پرسن استعفے کا مطالبہ تو کرتے ہیں لیکن وجہ نہیں بتاتے۔ کہتے ہیں کہ انہیں ’’بلّے‘‘ کے معاملے پر فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ فیصلے میں غلطی کیا تھی، یہ نہیں بتاتے۔ بظاہر سب سے بڑی غلطی اس فیصلے کی یہ ہے کہ اس میں ’’بلیک لا‘‘ ڈکشنری سے کوئی مدد نہیں لی گئی، سارا فیصلہ پاکستانی آئین اور قانون کے تحت کیا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ان میڈیا پرسنز نے جن دو حضرات سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیاتھا، وہ استعفیٰ دے کر آسٹریلیا وغیرہ کا رخ کر چکے۔ مریم نواز نے اوکاڑہ کے جلسے میں بتایا کہ وہ جوتے چھوڑ کر بھاگ گئے جو کہ غلط ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ جوتوں سمیت بھاگے، جوتے چھوڑ کر نہیں۔
ان ہر دوحضرات کے بھاگ جانے کا غصہ بھی وہ چیف جسٹس پر نکال رہے ہیں۔ غصہ نکالنے والے یہ میڈیا پرسنز کئی درجوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلا درجہ تو وہ ہے جنہیں بلّے باز کے بلّے سمیت آئوٹ ہونے کا صدمہ ہے۔ دوسرا درجہ وہ ہے جن کو اس بات پر برہمی ہے کہ پرویز مشرف کو سزا دینے کا خصوصی عدالت کا فیصلہ برقرار کیوں رکھا گیا۔ یعنی یہ درجہ ان کا ہے جو مشرف کے دور میں اور بعد میں بھی فیض یاب ہوتے رہے۔ اور پھر ایک تیسرا درجہ ہے جو بہت دلچسپ ہے۔ اس طبقے کی قاضی دشمنی کی بنیاد ایک ’’افواہ‘‘ پر ہے۔ اور افواہ یہ ہے کہ قاضی کی عدالت ڈیم والے چاچا کیخلاف کوئی کیس سننے والی ہے۔
اس افواہ کی تصدیق کہیں سے نہیں ہوئی لیکن اس درجے کے لوگ جو ڈیم والے چاچائے مصاحب اور خوشہ چیں بلکہ بعض تو پارٹنر بھی رہے ہیں، اپنے ولی نعمت کے خلاف ممکنہ کارروائی پر پیشگی برہم ہو گئے ہیں۔
ڈیم والے چاچا دراصل جگت چاچا ہیں۔ وہ صرف گریٹ خان اور شیخ آں چلّہ ہی کے چاچا نہیں تھے، کئی صحافیوں اور میڈیا پرسنز کو ’’مچپّڑ روٹیات اور مچرّب لحمیات‘‘ کھلاتے رہے ہیں۔ چنانچہ ان کی پیشگی برہمی برحق جانیئے۔
______
کالم یہاں تک لکھا جا چکا تھا کہ شیر مروت کی چوتھی فتح کی خبر موصول ہوئی۔ انہوں نے اپنی اتحادی جماعت جے یو آئی شیرانی گروپ کو راندہ درگاہ قرار دے کر اپنی آغوش یک جاتی سے نکال پھینکا ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ اس قابل نہیں کہ ان سے اتحاد کیا جائے۔
وجہ اس عتاب کی شیرانی گروپ کے لیڈر مولانا گل نصیب کا یہ بیان بنا کہ بلّے کے نشان پر چیف جسٹس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہے۔
ڈر ہے، کسی دن مروت صاحب کا یہ بیان بھی نہ آ جائے کہ وہ جو اڈیالے کے اندر بیٹھا ہے، اس سے بھی ہمارا کوئی تعلق نہیں، اب تو لیڈر اور قائد میں ہوں جو مجھے نہیں مانتا، اس پر چار حرف۔