تحریک انصاف کی نقالی میں صحافیوں کو قصیدہ گو منشیوں کے گروہ میں تبدیل کرنے کو بے چین مسلم لیگ (نون) کے سوشل میڈیا پر چھوڑے غول کو خدارا کوئی سمجھائے کہ اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو قائل کریں کہ تحریک انصاف کے ساتھ ناانصافی نہیں ہورہی۔قاضی فائز عیسیٰ نواز شریف کو چوتھی باروزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھانے کو بے چین نہیں۔اہم ترین یہ پیغام بھی اجاگر کرنا پڑے گا کہ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف مقتدر کہلاتی قوتوں کے ساتھ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے حصول میں ناکامی کے بعد اب سرجھکائے مک مکاکے ذریعے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کی کوشش نہیں کررہے۔
عمر تمام صحافت کی نذر کردینے کی بدولت میں اپریل 2022ء سے رپورٹر کی جبلت سمیت عام پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کے ساتھ بازاروں اور ریستورانوں میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران دیانتداری سے یہ محسوس کرتا رہا ہوں کہ ہمارے عوام کی اکثریت نواز شریف اور ان کی جماعت کے بارے میں مذکورہ بالا خیالات کی حامل ہے۔دیہاڑی دار اور کم آمدنی والوں کی بے پناہ تعداد شہباز حکومت کو ان پر نازل ہوئے مہنگائی کے ناقابل برداشت عذاب کا واحد سبب تصور کرتی ہے۔16مہینے برسراقتدار رہنے کے باوجود شہباز حکومت کے میڈیا پر مسلط کئے نابغے انہیں ہرگز سمجھا نہیں پائے کہ ’’دیوالیہ‘‘ کیا ہوتا ہے اور پاکستان 2022ء بکا آغاز ہوتے ہی اس کی دہلیز کی جانب تیزی سے پھسلنا کیوں شروع ہوگیا تھا۔ ان کے مقابلے میں روایتی اور سوشل میڈیا کے بھرپور اور ماہرانہ استعمال کے ذریعے عمران خان اپنے حامیوں ہی کو نہیں بلکہ پاکستانیوں کی معقول تعداد تک بھی یہ پیغام پہنچانے میں حیران کن حد تک کامیاب رہے کہ امریکہ ان کے ’’آزاد منش‘‘ رویے سے پریشان ہوگیا تھا۔وہ آئی ایم ایف کے دبائو کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے بجلی،پٹرول اور گیس کی قیمتوں کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہے۔ان کی ’’کامیابیوں‘‘سے گھبراکر امریکہ نے عمران خان کی تمام مخالف سیاسی جما عتوں کو متحد ہونے کو اکسایا۔ ایک دوسرے کی ’’نظریات‘‘ یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر مخالف جماعتیں عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کو یکسوہوگئیں۔ عمران خان کے ساتھ ’’ہاتھ ‘‘یہ بھی ہوا کہ قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں ہماری قومی سلامتی کو یقینی بنانے والے ادارے بھی ان کے خلاف مبینہ ’’سازش‘‘ میں شریک ہوگئے۔
سائفر وغیرہ کی بنیاد پر تحریک انصاف نے جو داستان گھڑی میں ذاتی طورپر اس سے ہرگز متفق نہیں۔ اس کالم میں بارہا اس داستان کے بنیادی جھول اجاگر کرنے کی کاوش بھی ہوئی۔ اس کی وجہ سے تحریک انصاف کی سپاہ ٹرول مجھ ’’لفافے‘‘ اور ’’ٹوکری والے بابے‘‘ کو مسلسل رگیدتی رہی۔ میں اس سے پریشان نہیں ہوتا کیونکہ اقتدار کے کیک میں کسی حصے کا طلب گار نہیں۔مسلم لیگ (نون) مگر ایک سیاسی جماعت ہے۔ 1980ء کی دہائی سے اقتدار واختیار کے کھیل میں کلیدی حصہ دار رہی ہے۔ 8فروری2024ء کے انتخاب کے ذریعے وہ ایک بار پھر اقتدار میں آنے کو بے چین ہے۔عمران خان کے پھیلائے بیانیے کا جوابی بیانیہ اسے ہی تشکیل دینا ہوگا۔ ہنر ابلاغ کا طالب علم ہوتے ہوئے اگرچہ یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ پراپیگنڈہ کے محاذ پر وہ تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے میں قطعاََ ناکام ہورہی ہے۔
تحریک انصاف کی نقالی میں مسلم لیگ (نون) کی سپاہ ٹرول اپنے ناقدین کی بھداڑانے کے لئے وہ ہی الفاظ وتراکیب استعمال کررہی ہے جو عاشقان عمران کے پسندیدہ ہیں۔ مجھ جیسے صحافی مثال کے طورپر اگر بانی تحریک انصاف کے کسی دعویٰ پر سنجیدگی سے دلائل کے ذریعے سوال اٹھاتے تو ہمیں ’’بغض عمران‘‘ میں مبتلا پکارا جاتاتھا۔ پیر کے روز مسلم لیگ (نون) کے سوشل میڈیا کے لئے کرائے پر لئے لفظ فروشوں نے مجھے اب ’’بغض نواز شریف‘‘ کا مریض بھی ٹھہرادیا ہے۔
اسلام آباد کے جس سیکٹر میں رہتا ہوں پیر کے روز وہاں بتی صبح نو بجے چلی گئی اور تقریباََ ساڑھے تین بجے واپس آئی۔ دریں اثناء میرا ٹیلی فون بیٹری ختم ہونے کی وجہ سے مردہ ہوچکا تھا۔باقی دنیا سے کٹا محسوس کرتا رہا۔بجلی بحال ہوئی تو اوکاڑہ میں مسلم لیگ (نون) کا انتخابی جلسہ شروع ہوچکا تھا۔ مجھے سوشل میڈیا کی بدولت اس کی خبر ملی تو سب کام چھوڑ کر کمرے میں نصب ٹی وی آن کردیا۔ محترمہ مریم نواز صاحبہ کی اس جلسے میں ہوئی تقریر کے ایک ایک لفظ کو بہت غور سے سنا اور بعدازاں تھوڑی دیر کے لئے سوگیا۔
سونے کے بعد دفتر جانے کو تیار ہوا۔ دفتر جا تے ہوئے اپنا فون کھولا تو سوشل میڈیا کے ذریعے خود کو مسلم لیگ (نون) کے ’’غازی‘‘بناکر پیش کرتے چند صاحبان نے اوکاڑہ والے جلسے کی تصویرمجھے ٹیگ کرکے ان دنوں ایکس کہلاتے پلیٹ فارم پر لگارکھی تھی۔ میرا ’’توا‘‘ لگانے کے عمل کا آغاز کرنے والے صاحب نے مذکورہ تصویرکے نیچے یہ لکھا:’’نصرت جاوید، اعزاز سید دونوں آج کا جلسہ بغور دیکھیں اور پھر بغض بھرے اپنے غلط تجزیہ نظر کا مشاہدہ کریں‘‘۔میں نے یہ پیغام پڑھا تو ’’تجزیہ نظر‘‘ کا لفظ پڑھ کر حیران ہوا۔ میرے ناقص علم کے مطابق اردوزبان میں ایسی کوئی ترکیب موجود نہیں ہے۔ مسلم لیگ (نون) کی سپاہ ٹرول والی مشین نے بہرحال اس پیغام کو دیوانہ وار ری پوسٹ کرنا شروع کردیا۔نوبت بہ ایں جارسید کہ ایک صاحب سنجیدگی سے معلوم کرنا شروع ہوگئے کہ اوکاڑہ میں مریم نواز صاحبہ کاکامیاب ترین جلسہ دیکھنے کے بعدمیں ’’زندہ ہوں یا مرگیا ہوں‘‘۔
مان لیتے ہیں کہ اوکاڑہ کی تاریخ میں اس سے بڑا جلسہ نہیں ہوا جس سے پیر کے دن محترمہ مریم نوازصاحبہ نے خطاب کیا ہے۔یہ تسلیم کرنے کے بعد کیا مجھے بطور صحافی سیاسی اور انتخابی عمل کے مشاہدے سے باز آجانا چاہیئے؟ ہرگز نہیں۔اوکاڑہ کا ’’تاریخی ‘‘ جلسہ یہ حقیقت جھٹلانہیں سکتا کہ چوتھی بار وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے کی خواہش میں نواز شریف نے ٹیکسلا کی سیٹ اس غلام سرور خان کے لئے خالی چھوڑ دی ہے جو ان کی لندن سے واپسی فقط ’’تابوت‘‘ ہی میں ممکن دیکھ رہا تھا۔اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے تین حلقے ہیں۔یہاں بھی ایک حلقہ عامر کیانی کے لئے خالی چھوڑ دیا گیا۔وہ صاحب عمران خان سے بے وفائی کے بعد اب منہ چھپائے ہوئے ہیں۔ان کے حلقے میں جبکہ عاشقان عمران کی ایک کثیر تعداد انتقامی ضد کے ساتھ یہ امر یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہے کہ انتخاب کے روز تحریک انصاف کا ہرحامی گھر سے نکلے اور اپنی جماعت کے نامزد کردہ شخص کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔ مجھ سے ’’زندہ ہو یا مر گئے ہو‘‘ والا سوال اٹھانے کے بجائے مسلم لیگ (نون) کے سوشل میڈیا کے لئے کرائے پر لئے عاشقوں کو اپنی قیادت سے سوال اٹھانا چاہیے کہ اسلام آباد سے قومی اسمبلی کا ایک حلقہ بغیر کسی جنگ کے مخالف جماعتوں کے سپرد کیوں کردیا گیا ہے۔غلام مگر سوال پوچھنے کے عادی نہیں ہوتے۔ وہ صحافیوں سے بھی ویسے ہی رویے کے طلب گار ہوتے ہیں۔