نیل کے ساحل سے… (2)

حسنی مبارک اور ضیاالحق
مصر اور پاکستان میں ایک دو نہایت تگڑی مماثلتیں موجود ہیں۔ مثلاً یہاں بھی پاکستانی ڈیموں کی طرز پر بنا ایک بہت بڑا ڈیم دریائے نیل کے اوپر قائم و دائم ہے۔ اسوان نامی اس ڈیم کی موجودگی نے مصر میں کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر ابھی یہاں وہ ’’انہی‘‘ نہیں پڑی جو اپنے ہاں واپڈا نے ڈال رکھی ہے بلکہ ہمارے حساب سے تو بیچارے مصری نہایت نیک‘ پاک صاف اور معصوم واقع ہوئے ہیں۔
مصری حکمران بھی پاکستانی حکمرانوں کی طرح بیحد امیر کبیر ہیں‘ جس طرح آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف پاکستان کے تین چار امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں‘ اسی طرح صدر حسنی مبارک بھی مصر کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستانی امراء کی فہرست زبان زدِعام ہے اور ہر دوسرے چوتھے دن اخبارات میں اس قماش کا مواد چھپتا رہتا ہے۔ مگر مصر میں صدر حسنی مبارک کی دہشت کا عالم یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہاں کا میڈیا اور عوام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
رئیل اسٹیٹ کے اعتبار سے شرم الشیخ کا شمار مصر کے مہنگے ترین علاقوں میں ہوتا ہے اور شنید یہ ہے کہ یہ علاقے جن چار بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہیں ان میں سے تین صدر حسنی مبارک کی ملکیت ہیں جبکہ چوتھی میں بھی قریباً چالیس فیصد گمنام حصہ انہی کا ہے۔ موصوف انتہائی غیرمقبول ہونے کے باوجود ایک طویل عرصے سے مصری عوام کے سروں پر سوار چلے آ رہے ہیں۔ یہ عرصہ ربع صدی سے بھی زائد ہے مگر ان کے ہاں اقتدار چھوڑنے کا ارادہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
ہمارے ایک صحافی دوست نے انکشاف کیا کہ یہاں کے عوام عمومی طور پر پولیس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرتے کیونکہ پولیس کے ساتھ آنکھیں چار کرنے کا مطلب یہی ہے کہ آ بیل مجھے مار۔ پولیس جب چاہے آپ کو حکومت مخالف سرگرمیوں کے نام پر اندر کر سکتی ہے۔ یہ نسخۂ کیمیا اپنے 16۔ایم پی او سے بھی چار ہاتھ آگے کا ہے۔ ہماری حکومتی تاریخ کے سیاہ ترین یعنی دورِ ضیاالحقی میں بھی تقریباً ایسے ہی حالات ہوا کرتے تھے کہ ہر طرح کی حکومت مخالفت کو غداری شمار کیا جاتا تھا۔
یہاں کے لوگ بھی حسنی مبارک کے لامتناہی اقتدار سے بری طرح تنگ آ چکے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے عوام چند سال بعد ضیاالحق سے اُکتا گئے تھے۔ خیر‘ پاکستانی عوام کی تو کسی نہ کسی طرح سنی گئی مگر مصری عوام کو اُمید کی کرن دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ یہاں آم کی پیٹیاں اور سی ون تھرٹی طیارے اس قدر وافر نہیں جتنے کہ پاکستان میں ہیں!
شرم الشیخ میں اب تک دہشت گردی کے دو واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک بہت شدید تھا۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دھماکہ لیبیا کے صدر معمر قذافی کے ایماء پر کیا گیا تھا اور اس کا ہدف سعودی فرمانروا‘ شاہ عبداللہ تھے جو اس حادثے میں بال بال بچ گئے۔ تاہم چند ماہ پہلے قطر میں عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قذافی نے شاہ عبداللہ کو مخاطب کیا اور حلفاً کہا کہ ان کا اس حملے میں کوئی ہاتھ نہیں۔ شاہ عبداللہ نے اس کے جواب میں سر کو صرف ہلکی سی جنبش دی اور بات آئی گئی ہو گئی۔
بہرحال‘ ہمارے ساتھی کی اس بات میں بڑا وزن ہے کہ عام آدمی یہاں پولیس کے ساتھ آنکھیں چار کرنے سے پہلے دس بار سوچتا ضرور ہے۔ تقریباً ایسے ہی حالات ہٹلر کی گسٹاپو کے ساتھ تھے اور برما میں آج بھی صورتحال تقریباً یہی ہے۔
گیلانی منموہن سنگھ سے ملاقات
شرم الشیخ میں ہونے والی پاک بھارت سربراہ ملاقات کا نتیجہ ہماری امیدوں کے عین مطابق نکلا۔ یہ سلسلہ اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ ہم نے بلوچستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں جاری بھارتی ’’کرم نوازی‘‘ کو پہلی مرتبہ مشترکہ علامیہ کا حصہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی‘ دوسرا یہ کہ آج کئی ماہ بعد بھارتی وزیراعظم نے اپنے الفاظ بارِ دیگر دہراتے ہوئے انہیں مشترکہ بیان میں شامل کروایا کہ ایک مضبوط‘ خوشحال اور جمہوری پاکستان بھارت کے سراسر فائدے میں ہے۔ تاہم کشمیر کا لفظ مشترکہ علامیے میں اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ اس کی جگہ ایک متبادل اصطلاح نے لے لی ہے اور وہ یہ کہ ’’تمام قابلِ حل امور‘‘ پر بات چیت کے سلسلے کو آگے بڑھنا چاہئے۔
ہو سکتا ہے کہ بھارتی عوام ڈاکٹر من موہن سنگھ کا سواگت زیادہ گرم جوشی سے نہ کریں کیونکہ بقول ہماری ایک صحافی دوست برکھا دت کے‘ سردار جی پاکستان کو بہت کچھ دے کر جا رہے ہیں‘ البتہ مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اپنے ملک میں گڈی بہت چڑھ سکتی ہے کیونکہ شنگھائی تعاون ممالک کی حالیہ میٹنگ کے موقعے پر روس کے شہر کنٹن برگ میں بھارتی وزیراعظم کا رویہ بے حد جارحانہ تھا جس پر صدر زرداری صاحب کافی سیخ پا بھی ہوئے مگر آج کا من موہن سنگھ پاکستانی وزیراعظم کی طرح نرم خُو اور دھیما دکھائی دیا۔ بین الاقوامی محاذ پر یوسف رضا گیلانی کی تاحال یہ سب سے بڑی اور اہم کامیابی ہے۔ آج ہمیں آگرہ کی چوٹی ملاقات بڑی شدت کے ساتھ یاد آ رہی ہے‘ کاش! وہاں بھی ہماری نمائندگی مشرف جیسے غیرسیاسی کردار کی بجائے کسی سیاسی شخصیت نے کی ہوتی۔ حالات وہ نہ ہوتے جو آج ہیں۔ کل قاہرہ روانگی ہے‘ اس لئے اگلا کالم غالباً وہیں سے داغیں گے!

ای پیپر دی نیشن