قومی سرمائے کی چوری ہر شعبہ میں پکڑی جائے

سوئٹزر لینڈ سے پچھلے دنوں ایک رپورٹ آئی تھی کہ وہاں سوس بنکوں میں پاکستانیوں کی جمع شدہ رقم بھارتیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ان رقوم میں سے ایک بڑا حصہ قومی سرمائے کا چوری شدہ حصہ ہے جو آئینی و قانون کیمطابق تو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ ہونا چاہئے تھا لیکن کرپٹ عناصر نے ترقیاتی منصوبوں اور دوسرے ہتھکنڈوں سے قومی دولت چوری کی اور انہیں سوئٹزر لینڈ کے بنکوں سمیت دنیا کے مختلف بنکوں میں رکھا ہوا ہے۔ اگر اس وقت یہ چوری شدہ پاکستانی سرمایہ وطن واپس منگوا لیا جائے تو پاکستان کو نہ تو آئی ایم ایف کا پروگرام لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی سالانہ امریکی امداد ضروری ہے جس کی وجہ سے عوام پر مہنگائی کا عذاب نازل ہوتا ہے اور ڈرون حملے بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوری شدہ اربوں ڈالر کا سرمایہ وطن واپس لانے کی جرا¿ت کون کریگا۔ اس عظیم کام کیلئے بہت زیادہ جرات اور اخلاقی قوت درکار ہے۔ ویسے سوس حکومت نے تو اتنے اعلیٰ اور عوام دوست قوانین بنا دئیے ہیں کہ اگر کوئی حکومت باقاعدہ سرکاری طور پر درخواست دے کہ فلاں فلاں اکا¶نٹ میں جمع رقوم درحقیقت سرکاری سرمایہ چوری کرکے جمع کرائی گئی ہے تو سوس گورنمنٹ سرکاری طور پر نئے قوانین کے تحت مکمل تعاون کرتی ہے اور ایسی رقوم واپس کرنے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔
اب فیصل آباد میں نجی شعبہ کے پہلے پن بجلی منصوبے کی تکمیل پر وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ وہ بجلی اور گیس چوروں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں کسی سیاسی دبا¶ میں نہ آجائیں اور نہ ہی اپنے بیان سے اس طرح انحراف کریں جس طرح انہوں نے جوش خطابت میں کہہ دیا تھا کہ آئندہ تمام اہم سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے سربراہ صرف اور صرف میرٹ پر لگائے جائینگے لیکن انویسٹمنٹ بورڈ سے پی آئی اے کے چیئرمین تک میرٹ چیک کرنے کیلئے کوئی اشتہار نہیں دیا گیا اور بے شک کسی کو بھی منتخب کرتے لیکن قوم کو پیغام تو جاتا کہ وزیراعظم نے اپنی تیسری ٹرم میں سابقہ پالیسی تبدیل کر لی ہے۔
اب یہ بھی اتفاق ہے کہ فیصل آباد میں 27 ارب روپے کی گیس اور بجلی چوری بھی پکڑی گئی اور یہ پاکستانی معاشرے میں دیگ کے ایک دانے کی مثال رکھتی ہے کیونکہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب نے شروعات تو کر دی ہیں اس وجہ سے لیسکو کا بیان ہے کہ دو سو سے زیادہ میگاواٹ کی بچت دیکھنے میں آئی ہے اگر ایمانداری سے بجلی اور گیس چوروں کے خلاف کارروائی کی جائے تو سالانہ اربوں روپے کی بچت ممکن ہے جو دوسرے لفظوں میں حکومت کی آمدنی ہے لیکن اس سلسلہ میں میڈیا اور عوام کا تعاون حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ میڈیا اس وقت بہت جرات اور بیباکی کے ساتھ عوامی مسائل پر پروگرام پیش کر رہا ہے جعلی کیچپ کا مسئلہ ہو یا جعلی مشروبات ہر موضوع پر دستاویزی ثبوت ساتھ پیش کئے جاتے ہیں لیکن ان پروگراموں کے جواب میں حکومتی مشینری کا ردعمل کافی سست نظر آتا ہے لیکن یہ غنیمت ہے کہ سلیم طاہر کے پروگرام ”میں اور آپ“ کے مقابلہ پر ردعمل بہتر ہے۔ وہ زمانہ وزیراعظم جونیجو کا تھا۔ سلیم طاہر اپنی اور اپنی ٹیم کو خطرے میں ڈال کر خوراک میں ملاوٹ سمیت تمام بدعنوانیاں منظرعام پر لاتا تھا لیکن شاید پی ٹی وی کی ہومیو پیتھک تاثیر کا اثر ہے کہ سرکاری حکام کسی کیخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کرتے تھے۔ اس لحاظ سے اب سرکاری سطح پر کارروائی دیکھنے میں آتی ہے جو خوش آئند ہے لیکن ردعمل کی سپیڈ تیز کرنے کی ضرورت ہے اور بجلی اور گیس چوروں کے خلاف بھی تیزی سے کیس مکمل کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے۔
اگر وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب واقعی گیس اور بجلی کی چوری میں سنجیدہ ہے۔ تو پھر یہ کام عوام کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ عوام سب جانتے ہیں کہ کہاں کون کون گیس اور بجلی چوری کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن عوام بلاوجہ مخالفت برداشت کرنا قبول نہیں کرینگے۔ اس مقصد کیلئے یہ ضروری ہے کہ عوام کو بجلی اور گیس چوری پکڑوانے کا انعام دیا جائے۔ یقیناً سرکاری خزانے میں انعام دینے کیلئے رقم موجود نہیں ہے لیکن جن گیس اور بجلی چوروں کو پکڑنے کے بعد ان سے ریکوری کی جائیگی تو اس ریکوری میں سے صرف اتنا حصہ پکڑوانے والے کو دے دیا جائے جتنا نیب پلی بارگینگ سے حاصل کرتا ہے یا کم از کم موٹروے پولیس کو چالانوں میں سے جو حصہ ملتا ہے۔ پھر دیکھئے۔ بجلی اور گیس چوری کیسے رکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن