مسلمانوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے‘ آج جبکہ ساری دنیا ٹیلیویژن پر ورلڈ فٹبال کے میچوں سے لُطف اندوز ہو رہی ہے۔ مسلمان ٹیلیویژن پر عراق اور شام میں طیاروں کی گھن گرج‘ گولیوں کی تڑتڑاہٹ دیکھ اور سن رہے ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کا گہوارہ عراق آج عملاً شیعہ ‘ سنی اور کرد بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے۔ آج مسلم امہ خانہ جنگی کی آگ میں جل رہی ہے‘ لیکن امت مسلمہ ہے کہاں؟ شیعہ‘ سنی اور 72 فرقوں میں تقسیم در تقسیم۔خلیل جبران نے کہا تھا ’’ترس کھائو‘ اس قوم پر جس کے مدبر لومڑیاں بن جائیں جس کے فلسفی بازی گر ہوں اور جس کا آرٹ پیوندکاری اور نقالی کا فن بن جائے۔‘‘
وہابی سعودی عرب‘ شیعہ ایران اورکرد گریز ترکی اپنے دھڑوں کی حمایت کر رہے ہیں اور نیوکلیائی ہتھیاروں کو بہانہ بنا کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا امریکہ مگرمچھ کے آنسو بہانے اور بغداد پر حملہ آور سنی اور آئی ایس آئی ایس پر فضائی حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔عراق کی تین حصوں میں جغرافیائی تقسیم اب نوشتہ دیوار ہے۔ امریکہ نے علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے بشارالاسد کیخلاف سنی دھڑوں کو اکٹھا کیا۔ اب تک تین سال کی خانہ جنگی کے دوران نوے لاکھ سے زائد مسلمان شام میں بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کیمطابق آج دنیا میں پانچ کروڑ سے زائد پناہ گزین ہیں جن میں 80 فیصد سے زائد مسلمان ہیں۔ دلخراش حقیقت یہ ہے کہ ایک عرب ملک نے اسرائیل سے کیمیائی گیس خرید کر شامی باغیوں کو استعمال کیلئے دی تاکہ اس کو جواز بناکر نیٹو فوج کشی کر سکے۔ یہ وقت بھی آنا تھاکہ ایران سے پاسداران انقلاب امریکی آشیرباد سے مقدس مزارات کی حفاظت کیلئے عراق میں لڑ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ عراق‘ شام‘ لیبیا‘ مصر کے ڈکٹیٹر سرد جنگ کے زمانے میں روسی سیٹلائٹ کے زیرسایہ تھے جبکہ خلیجی ریاستوں کے شیوخ امریکہ کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ وہ ایک ایک کرکے سارے انڈے توڑ دینگے۔ وہ مسلمانوںکی ٹوپی سے اپنے جوتے صاف کر رہا ہے‘ لیکن دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمان راکھ کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں …؎
اے صاحب صلیب مجھے جاں عزیز ہے
میرا کمال مرثیہ خوانی میں دیکھنا
اب سنیئے خیریت کی بات! فلسطین کا سات سال کا بچہ گلی سے نکلا‘ اسرائیلی ٹینک کے سامنے کھڑا ہوا اور پتھر پھینک کر دوسری طرف نکل گیا۔ ٹینک کے گھومتے سرے سے رائفل کی نالی نکلی‘ لیکن فائر سے پہلے بچہ غائب ہو چکا تھا۔یہ کھیل 1948ء سے بیت المقدس‘ غزہ‘ رملہ اور مغربی کناروں کی گلیوںمیں کھیلا جا رہا ہے۔ کتنی نسلیں پتھروں سے ٹینکوں اور غلیلوں سے توپوں کا مقابلہ کرتے آسودہ خاکم ہو گئیں۔ اسی خاک سے ابابیلوں کے کتنے ہی لشکر نکلے جو اپنی چونچوں میں کنکریاں بھر کر لوہے کے ہاتھیوںکے سامنے سینہ سپر ہو جایا کرتے تھے۔مسلمانوں کے پاس تین کروڑ اڑتالیس لاکھ کلومیٹر کا رقبہ‘ اسی لاکھ ٹرینڈ فوجی ہیں۔ یہ ملک ہر سال ایک سو بیس ارب ڈالر اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں۔ ذرا ایک نظر مسلم وسائل پر ڈالئے۔
کل دنیا ،مسلم امہ کے پاس ،دنیا کے کل ممالک 198،مسلمان ممالک 61،کل مذہت 5،اسلام دوسرا بڑا مذہب،کل آبادی تقریباً 7ارب،1ارب 50کروڑ مسلمان ہیں،کل بندر گاہیں 40،13بندر گاہیں مسلمانوں کی ،کل تیل پیدا کرنیوالے ممالک 17،14ممالک مسلمان ،گیس کے ذخائر رکھنے والے ممالک 10،5مسلم ممالک گیس کی دولت سے مالا مال،یورینیم کے ذخائر 17، 14مسلم ممالک مالا مال،سمندر سے ملنے والے ممالک 61،جن میں 52 مسلم ممالک ہیں۔ آج اگر تمام اسلامی ممالک اپنی آمدنی کا 10 فیصد ریگستانوں میں برج الخلیفہ اور برج العرب جیسی بیکار نمائشی بلند عمارتیں بنانے کے بجائے سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم پر لگا دیں تو دس سال میں وہ مغرب کی ہم پلہ عسکری طاقت بن سکتے ہیں‘ لیکن آج زمینی حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب انسان بڑی طاقتوںکو للکار کر نہیں کہہ سکتے کہ بس جناب بہت ہو چکی۔آج کے بعد آپ نے کسی مسلمان ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تو پوری دنیا سرینگر بن جائے گی۔ اس دنیا کی ہر گلی رملہ اور ہر پہاڑ چیچنیا ہوگا‘ لیکن جناب راکھ کے ڈھیر میں ایسی جرأت کہاں اور یہ سچ ہے کہ بھیڑ بکریوں میں کبھی اتحاد نہیں ہو سکتا اور بھیڑ بکریاں قصائی کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتیں۔ مسلمان ممالک کے حکمران بھیڑیں ہیں۔شاید ہمارے آبائواداجداد میں کسی نے سات سو سال پہلے بھیڑیئے کو گالی دی ہوگی جس کی سزا ہمیں بھگتنا پڑ رہی لہٰذا آیئے اچھے میمنوں کی طرح سر جھکائیں اور دوسرے کے مقدر میں لکھی سزائیں کاٹ کر چپ چاپ مر جائیں۔ ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوںسے تو وہ بھیڑیں اچھی ہیں جو قصائی کی چھری کی لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے وقت کم از کم باں باں تو کر دیتی ہیں‘ ہم سے تو سات سال کا وہ فلسطینی بچہ زیادہ با ایمان نکلا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ پتھروں سے ٹینک نہیں ٹوٹا کرتے‘ لیکن پھر بھی میرے نبیؐ کی سنت نبھاتا رہا۔ اللہ کے حکم پر عمل کرتا رہا ؎
پیٹ خالی ہے خزانہ تو بھرا ہے اپنا
مسجدیں بیچی نہیں‘ رہن اذان رکھ دی ہے