شکر ہے کہ خوبرو ماڈل سمگلنگ کی ماہر ایان علی ضمانت پر رہا ہو گئی ہے۔ وہ عید جیل میں کر لیتی تو اس کا کیا جاتا۔ قیدی خوش ہو جاتے۔ قیدی اور قائد میں کم کم فرق ہوتا ہے۔ وہ ’’صدر‘‘ زرداری اور رحمان ملک کے لئے ’’کام‘‘ کرتی رہی ہے۔ حیرت ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے والوں کو کچھ نہیں کہا گیا۔ وہ عید منانے نجانے کس کے ساتھ دبئی چلے گئے ہیں۔ رحمن ملک بھی ان کے پیچھے چلا گیا ہے۔ ایان علی کو چھوڑا گیا ہے تو اسے دبئی بھی جانے دیں۔ اس کی واقعی عید ہو جائے گی لیکن یہ سوچیں کہ چوڑیاں چھنکانے والی کو پکڑ لیا گیا ہے۔ منی لانڈرنگ کے لئے انگلینڈ کی عدالتوں نے الطاف حسین کی دوبارہ ضمانت لے لی ہے تو ایان علی نے کون سا بڑا گناہ کر لیا ہے۔ وہ بھی حیران ہے کہ میں 44بار دبئی چلی گئی۔ ڈالر بھی زیادہ ہوتے تھے تو مجھے نہیں پکڑا گیا۔ اب کیوں پکڑ لیا گیا ہے؟
’’صدر‘‘ زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کی مخولیہ بات کی ہے تو لگتا ہے کہ ان کے دونوں ہاتھوں میں اینٹ ہے اور وہ اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں۔ جیسے تالی بجائی جاتی ہے۔ رقص بھی کر رہے ہیں یعنی دھمال ڈال رہے ہیں۔ دھمال ڈالنے میں ایان علی تال دیتی ہو گی۔
ایان علی کی ضمانت پر رہائی کے لئے ’’صدر‘‘ زرداری اور رحمان ملک کو مبارکباد ہو۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھی مبارک ہو۔ مبارکباد کا مستحق تو سینٹر ڈاکٹر قیوم سومرو ہے۔ اسے جیل میں ’’خدمت‘‘ کا بڑا تجربہ ہے۔ دو دو مبارکیں۔ عید مبارک اور ضمانت مبارک۔ آصف زرداری جیل سے نکالے جاتے ہیں تو ایوان صدر پہنچتے ہیں۔ اٹک قلعہ سے نواز شریف نکلتے ہیں تو جدہ کے سرور محل میں پہنچتے ہیں۔ منی لانڈرنگ کس نے نہیں کی۔ یہ بھی کوئی جرم ہے مگر ایان علی کے جرم کو ظلم بنا دیا گیا۔ بیچاری کو پتہ بھی نہ ہو گا کہ منی لانڈرنگ ہوتی کیا ہے۔ایک بہت بڑے عدالتی لیڈر جسے پاکستان کے مایوس لوگوں نے نجات دہندہ سمجھا تھا ریٹائرڈ چیف جسٹس افتخار چودھری نے ایان علی جیسی خاتون عتیقہ اوڈھو کے خلاف شراب کی چند بوتلیں سمگل کرنے پر سوموٹو ایکشن لیا تھا جبکہ شراب تو منوں کے حساب سے ملک میں لائی جاتی ہے چلائی جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عورت کے ذریعے یہ کام کیوں کرایا گیا اور اس کے خلاف سوموٹو کیوں کرایا گیا۔ ایوان صدر میں سرکاری افسران بھی شراب فراہم کرتے ہوں گے؟ سنا ہے ابھی تک بے چاری خاتون پیشیاں بھگت رہی ہیں۔ یہ معاملہ کہاں کہاں درپیش ہوتا ہے؟ ایان علی کو اتنے دن رات جیل میں رکھا گیا جبکہ اس کے خلاف ٹھیک ٹھاک تفتیش کرنے والے کسٹم افسر کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ اس واردات کا میڈیا میں تھوڑا دسا ذکر آیا اور پھر اسے ناقابل ذکر قرار دے دیا گیا۔
شہید بی بی کے قتل کے اہم گواہ قتل کر دئیے گئے۔ کبھی کبھی قاتلوں کو بھی قتل کرانا پڑ جاتا ہے۔ ایک دفعہ بہت خوبرو اداکارہ زیبا بختیار کو بھی اکلوتے بیٹے کے حوالے سے پھنسانے کی کوشش کی گئی تو سرکار دربار کے کئی ’’بڑوں‘‘ نے بھی ’’خدمت خلق‘‘ کا فریضہ ادا کرنے کے لئے میدان میں ڈیرے لگا لئے۔ زیبا بختیار نے عجب سرشار بے اختیاری میں ڈوب کر بہت سی ’’خدمات‘‘ کو قبول کر لیا تھا۔ گوشہ عافیت میں چلی گئی بلکہ وہاں مستقل مقیم ہو گئی؟اس کے بعد زیبا بختیار کا ذکر معدوم ہو گیا بلکہ موہوم ہو گیا ہے۔ عتیقہ اوڈھوبھی گوشہ گمنامی میں چلی گئی مگر ایان علی کا معاملہ ذرا مختلف ہے اسے اہتمام کے ساتھ احتیاط سے بھی کام لینا ہو گا کیونکہ اس کا جیل سے باہر ہونا خطرناک بھی ہو سکتا ہے یہ جو کہا جاتا ہے کہ پولیس نے اسے حفاظتی تحویل میں لے لیا تو اس کے کئی معانی ہیں۔ جبکہ کوئی ایجنٹ ڈبل ایجنٹ یا استعمال ہونے والا یا والی کسی خطرے کی حد میں آ جائے تو اس کا استحصال بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ ایسے استعمال اور استحصال دونوں ملتے جلتے ہیں۔ ایان سے جو کچھ اگلوانا تھا وہ کام مکمل کر لیا گیا ہو گا کیونکہ اس کی قید اور ہماری قیادت میں ایک ’’مقصد‘‘ تو ایک ہی ہے۔ مگر پھر بھی ڈرے ہوئے آدمی خدا سے نہیں ڈرتے۔ کسی کی جان لینے والے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اپنی جان موت کے فرشتے کے حوالے کرنا ہی نہیں۔ فرشتے الیکشن اور ایکشن میں ایک جیسے کارآمد ہوتے ہیں
نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی
ڈر اس کی دیر گیری سے کہ ہے سخت انتقام اس کا
مجھے ایک حیران پریشان کر دینے والی شاعرہ کے کچھ اشعار یاد آتے ہیں۔ اس کا نام میرے ذہن میں نہیں آ رہا۔ اکادمی ادبیات لاہور کے برادرم جمیل سے پوچھ کر بتائوں گا۔ سنا ہے ایان علی نے جو کتاب جیل میں نہیں لکھی وہ جیل سے باہر لکھے گی یا لکھوائے گی۔ آخر نااہل وزیراعظم گیلانی نے بھی کسی نہ کسی سے لکھوا لی تھی۔ اس کتاب میں یہ اشعار بھی شامل کر لیں۔ شاعری کا مطلب اپنا اپنا ہوتا ہے
ایک دن سب حدوں کو توڑ جائوں گی
یہ پنجرہ خالی چھوڑ جائوں گی
کچا برتن ٹوٹ جائے گا
تب ہوا بن کر تمہارے پاس آئوں گی
پھر یہ ملن رہے گا ہمیشہ