عیدایسا خوشی کا تہوار ہے کہ ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے پیاروں کیساتھ گزارے۔ اگر کسی مجبوری کے تحت انسان گھر والوں سے دور تو انسان کے ذہن میں گھر والوں کی ساری باتیں انکی نقل و حرکت سامنے آتی ہے لیکن اگر کسی کا کوئی پیارا ان سے جدا ہو گیا ہو تو گھر والوں کو اسکی یاد ستاتی ہے اور بالخصوص خوشی کے لمحات میں آنگن میں پیارے اور عزیز کو نہ پا کر انسان پریشان رہتا ہے۔ جوں جوں عید قریب تر آتی جا رہی ہے۔ انسان اپنے بچھڑے عزیزوں کو یاد کرکے آنسو بہاتا ہے۔ یہ تکلیف صرف وہی جان سکتا ہے جس کا بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی، ماں، باپ، شوہر یا بیوی انہیں لمبی جدائی دے کر چلے گئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ 16دسمبر 2014ء کو پشاور میں بھی معصوم بچے ظالم درندوں کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان بچوں کے والدین کی بھی آج عید ہے۔ والدین بچوں کے بغیر کس کرب میں یہ دن گزاریںگے اس کا تصور کرکے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میرا چھوٹا بھائی جب اس فانی دنیا سے رخصت ہوا تو اسکے بعد میں نے اپنے والدِ محترم کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں دیکھی حالانکہ ہم پانچ جوان بھائی ہمہ وقت انکے ساتھ باتیں کرکے ان کا دکھ ہلکا کرنے کی کوشش میں ہوتے تھے۔ پشاور کے ایک شہید بچے نے جنت سے اپنی والدہ محترمہ کو تصوراتی خط تحریر کیا ہے۔ آپ بھی پڑھیں۔
ماں میں تجھے کیسے سلام کروں۔ مجھ میں تو اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ ایک لمبے عرصے کے بعد آپکا سامنا کروں حالانکہ آپ تو مجھ سے ایک منٹ بھی دور نہیں رہ سکتی تھیں‘ لیکن اب ایک لمبی جدائی کے بعد آپکو صرف سلام پر اکتفا کر رہا ہوں۔ میں تو بس بنا کچھ سوچے سمجھے، آپ سے لپٹ جانا چاہتا ہوں۔ تجھے لپٹ کر بنا کچھ کہے بنا کچھ سنے، تیرے بازوؤں میں چھپ جانا چاہتا ہوں، تیرا بوسہ اپنے گالوں اور ماتھے پر محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ ماں یہاں جنت میں سب کچھ ہے۔ اگر نہیں ہے تو بس میری ماں۔
ماں، میں یہاں جنت میں خیریت سے ہوں۔ تب تک جب تک مجھے آپ کی یاد نہیں آتی۔ آپ کی یاد آتے ہی سب کچھ پھیکا سا لگنے لگتا ہے۔ ہر طرف بس تیری ہی شکل دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھے زور زور سے پکار رہی ہیں اور میں آپ کی آواز سنتے ہوئے بھی آپکے ساتھ لپٹ نہیں سکتا۔
آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے کے بعد جنت میں پہلی بارآپ کے بغیر روزے رکھے۔ تیرے بغیر سحر اور افطار کی۔ تجھ بِن روزے تو گزار لیے، مگر عید نہیں گزار پاؤں گا ماں۔ اسی لیے مجبور ہو کر تجھے خط لکھ رہا ہوں۔
ماں، جنت میں ہر سحری کے دوران مجھے آپکے ہاتھ کے بنے ہوئے پراٹھے یاد آتے ہیں۔ میں کیسے بھولوں جب آپ زبردستی پراٹھا چائے میں ڈبو ڈبو کر اپنے ہاتھوں سے کھلاتی تھی۔ مسجد سے اذان کی آواز آنے پر تو اپنا کھانا چھوڑ کر پانی کا گلاس میرے منہ سے لگا دیتی تھی اور تیرا کھانا وہیں پڑا رہ جاتا تھا۔میں کیسے بھولوں ماں جب سخت گرمیوں کے روزوں میں تو ہمیں بجلی جانے پر اپنا گیلا دوپٹہ دے کر سلایا کرتی تھی اور اخبار کے ذریعے ہم بہن بھائیوں کو ہوا دیا کرتی تھی۔
افطاری بناتے وقت شدید گرمی میں تو میری ساری فرمائشیں پوری کرتی تھی۔ انڈے والے پکوڑے، چاٹ اور دہی بھلے، مجھے کیسے نہ یاد آئیں ماں۔
رمضان کے آخری دنوں میں سب گھر والوں کے ساتھ شاپنگ پر جانا بھی بہت مِس کرتا ہوں ماں۔ نماز پڑھنے کیلئے شلوار کرتا اور پینٹ شرٹ کی خریداری، سب یادیں مجھے بہت ستاتی ہیں۔ ابا کے پیسے کم پڑ جانے پر آپ اپنی بچت میں سے جوتے لے کر دیتی تھیں اور وہ بھی کالے رنگ کے، تاکہ اسکول کیلئے بھی کام آسکیں اور میں کسی خوشی کے موقع پر پہن سکوں۔ سب کچھ بہت یاد آتا ہے ماں۔
پچھلی عید پر جب آپ نے میری ضِد پوری کرتے ہوئے مجھے سفید جوگرز لے کر دیے تھے، وہ آج بھی یاد ہیں مجھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب عید کے دن صبح سویرے اٹھ کر آپ نے میری سفید شلوار سوٹ بجلینہ ہونے کی وجہ سے اِستری کو چولہے کے ذریعے گرم کرکے استری کیا تھا اور اس دوران آپکا ہاتھ بھی جھلس گیا تھا۔ میرے پوچھنے پر آپ نے کہا تھا کہ چْھری لگ گئی ہے۔عید کی نماز پڑھ کر واپس آنے پر آپ سے لپٹنا اور آپ کا میرا ماتھا چومنا، کیسے بھلا دوں ماں۔ عید کے دن یہاں کوئی بھی نہیں جو مجھے تیرے ہاتھ کی بنی ہوئی دودھ والی سویاں اپنے ہاتھوں سے کھلائے۔ یہاں کوئی نہیں جو مجھے دس دس کے نوٹ دے اور کہے جائو اور محلے کے بچوں کے ساتھ جھولے لو۔
عید پر سب کچھ ہے ماں، بس نہیں ہے تو میری ماں۔
یہاں کوئی بھی نہیں جو مجھے عید پر نانی کے گھر لے جائے اور وہاں جا کر ہم سارے کزنز ملنے والی عیدی سے ویڈیو گیمز کھیلیں، اور برابر والی گلی سے آلو چھولے اور رنگ برنگا لچھا کھائیں۔ ماموں اب میرے حصے کی عید چھوٹے بھائی کو دیدینا۔ نانا ابو اور نانی نے کورے کورے نئے نوٹ بھی تو میرے لئے رکھے ہونگے۔
ماں۔ مجھے پتہ ہے کہ میرا خط پڑھتے ہوئے تیرے آنسو برستی بارش کی طرح ٹپک رہے ہیں۔ مجھے پتہ ہے کہ تیرے دل پر اس وقت کیا گزر رہی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ تیرا بس نہیں چل رہا ورنہ آپ فوراً میرے پاس آجائیں۔ماں، آج عید ہے اور آپ میرا خط پڑھ کر رو رہی ہے۔ نہ رو ماں، میری قسمت میں ظالم دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہونا ہی لکھا تھا۔ کیا ہوا جو آج میں تیرے پاس نہیں۔ میرا چھوٹا بھائی تو ہے جو پیٹ میں درد کا بہانہ بنا کر 16 دسمبر کو اسکول نہیں گیا تھا۔
ماں، تجھے میں رلانا تو نہیں چاہتا، مگر میں مجبور ہوں۔ اگر عید نہ ہوتی تو میں یہ خط نہ لکھتا۔
ماں، اب مجھ سے اور نہیں لکھا جا رہا۔ میرے جملے میرے جذبات کو الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہیں۔ میری بے بسی بس تجھے یاد کر کر کے مجھے رلا رہی ہے۔
ماں، اپنا خیال رکھنا اور چھوٹے بھائی کو اپنے بازوؤں میں لیکر میرے حصّے کا پیار کرنا۔ میں سمجھوں گا میری ماں نے ہر عید کی طرح میرے چہرے پر بوسہ دیکر عید ملی۔
فقط آپ کا شہید بیٹا
محمد احسن کلاس ششم آرمی پبلک سکول، پشاور