اردگان کو ترک عوام کا قرض چکانا ہوگا!

یونیورسٹی سے فراغت کے بعد وہ عملی زندگی میں آیا تو اُسے نجم الدین اربکان جیسے اسلام پسندترک بزرگوں کی رہنمائی اور قربت میسر آگئی، اربکان نے اُس کے اندر چھپے جوہر اور جذبے کو پہچان کر اپنی سیاسی جماعت ’’قومی نجات پارٹی‘‘ کی نوجوانوں کی شاخ کا صدر بنادیا۔سخت مراحل سے گزرنے کے باوجود آنے والے برسوں میں اُس نے بڑی ترقی کی اور اپنی محنت اور عوامی خدمت کے بل بوتے پر استنبول کا میئر بن گیا۔اپنی میئر شپ کے مختصر سے دور میں اُس نے استنبول کو لندن، پیرس اور نیویارک کے مقابلے میں لاکھڑا کیا، جس کے بعد اُس کی اگلی منزل ملکی، علاقائی اور عالمی سیاست تھی۔ترکی میں اُس وقت سیکولرازم کا طوطی بول رہا تھااور سیکولرازم کی سب سے بڑی محافظ ترک فوج اور ترک عدلیہ تھی، جن سے ’’الجھے‘‘ بغیر ایک اسلام پسند ترک کا آگے بڑھنا ممکن نہ تھا، لیکن جب اُس نے قومی سیاست میں قدم رکھا تو بچپن میں محلے کی مسجد میں امام مسجد سے سنے سنہری الفاظ مسلسل اُس کے کانوں میں گونجتے رہتے تھے۔ ’’ اگر آپ نے ترک عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنی ہے تو پھرسیکولر قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بجائے اُنہیں اُنہی کے میدان میں شکست دینا ہوگی، وہ جمہوریت کانام لے کر تم پر مسلط ہیں، تم بھی اپنی تعدادبڑھاؤ، لوگوں کی خدمت کرو اور اُن پر چھا جاؤ‘‘۔ لہٰذا اُس نے سیکولر قوتوں سے الجھنے کی بجائے اپنی توجہ مسلسل لوگوں کی خدمت کرکے اپنی قوت بڑھانے پر مرکوز رکھی۔اُس کا جذبہ اور ارادے دیکھ کر مخالف قوتوں نے اُس کے راستے میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑنا شروع کردیں، لیکن وہ ذرا نہیں گھبرایا بلکہ گھبرانے کی بجائے اُس نے ایک بلند پایہ میرِ کارواں کی طرح ’’نظر بلند، سُخن دلنواز، جاں پرسوز‘‘ کو کلیے کو اپنا رخت ِ سفر بنائے رکھا۔ اس جہد مسلسل، بلند حوصلے اور جواں جذبے نے ملکی سیاست میں نام پیدا کرنے کے بعد جلد ہی اُسے عالمی سیاست کا اہم ترین کھلاڑی بھی بنادیا۔ ترکی کا یہ مردِ جری کوئی اور نہیں بلکہ تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہوکر عوام کی خدمت کا سنہری باب رقم کرنے والا موجودہ صدر رجب طیب اردگان ہے۔
استنبول کی میئرشپ کے دور میں کی جانے والی عوامی خدمت اور ترقیاتی کاموں کے ثمر کے طور پر اردگان کو عام انتخابات میں بھی کامیابی ملنا شروع ہوگئی، جس کے بعد اردگان نے ترکی میں سیکولرزم کی محافظ بے لگام فوج اور منہ زور عدلیہ کو بھی لگام دینے پر کام شروع کردیا۔اردگان نے ترقی کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کا مقابلہ مسلسل بڑھتی ہوئی عوامی حمایت سے کیا اور یہ حمایت اُنہیں بلاشبہ عوام کی خدمت سے ملی۔تین دفعہ وزیراعظم اور ایک مرتبہ صدر بننے کے بعد بھی اردگان کے معمولات زندگی میں کوئی تبدیلی نہ آئی بلکہ ان کے فلاحی منصوبے ترکی سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوگئے۔ مثال کے طور پر 2005ء میں پاکستان میں آنے والا ہلاکت خیز زلزلہ ہو یا 2010ء کا تباہ کن سیلاب ہو، پاکستان میں قدرتی آفات میں بے آسرا ، یتیم اور بے سہارہ ہونے والے افراد کی بحالی کیلئے اردگان خاندان کی خدمات کا اعتراف حکومت پاکستان اُنہیں اعلیٰ ترین سول اعزاز ’’نشان پاکستان‘‘ دے کر خود کرچکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ غزہ کی سلگتی پٹی میں جھلستی فلسطینی ماؤں بہنوں کی آہ و بکاہ پر بھی سب سے پہلے اردگان نے ہی عملی طور پر لبیک کہااوراس طرح ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ کو محصور فلسطینیوں کی مدد کیلئے روانہ کیا جاسکا۔دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہو، اردگان اس کیخلاف آواز اٹھانے میںہی پیش پیش نظر نہیں آئے بلکہ مدد کیلئے عملی طور پر بھی وہاں پہنچتے رہے ہیں۔ اردگان دنیا بھر کے مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی مواقع فراہم کرنے کے پرزور حامی رہے ہیں اور اس سلسلے میں مغرب کے منفی پراپیگنڈا اور دہرے معیارات کے بھی انتہائی خلاف رہے ہیں۔
ملک کے باہر تو اردگان کی شہرت میں اضافہ ہوہی رہا تھا لیکن ملک کے اندر سیکولر عناصر کی جانب سے اردگان کا راستہ ہمیشہ مشکل بنانے کی کوشش کی جاتی رہی، مگر اردگان کی قیادت میں اسلام پسندوں نے ترکی میں سیکولر فوج اور سیکولر عدلیہ کے ساتھ بڑے تیکنیکی انداز سے مقابلہ کیا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔اپنی نظموں میں مساجد کو اپنی بیرکیں، گنبدوں کو اپنی زرہ بکتر اور میناروں کو اپنے نیزے کہنے والے ترک صدر رجب طیب اردگان جب بھی اپنے آبائی شہر ’’ریز‘‘ جاتے تو بحیرہ اسود کے کنارے ایستادہ اس مسجد کو ضرور یاد رکھتے ، جہاں17 ستمبر 1961کی شام اگر مسجد کے پیش امام نوجوانوں کو نہ سمجھاتے کہ ’’ اگر آپ نے ترک عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنی ہے تو پھرسیکولر قوتوںکے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بجائے اُنہیں اُنہی کے میدان میں شکست دینا ہوگی، وہ جمہوریت کانام لے کر تم پر مسلط ہیں، تم بھی عوام کی خدمت سے اپنی تعداد بڑھاؤ اور ان پر غالب آجاؤ‘‘ تو شاید ترکی کو آج بھی یورپ کے ’’مردِ بیمار‘‘ کے طور پرہی پہچانا جارہا ہوتا، لیکن ترک عوام نے امام مسجد کے اُن تاریخی الفاظ کو ہمیشہ کیلئے اپنے پلے سے باندھ لیا اورسیکولرقوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بجائے خالی ہاتھ ہی مقابلہ کرتے رہے۔
ترکی میں رونما ہونے والا فوجی بغاوت کا حالیہ واقعہ بھی اردگان کی شجاعت، بہادری اور ترک قوم کے بلند حوصلے کی ایک مثال ہے، جس میں سیکولر فوج کی باقیات نے ایک دفعہ پھر ترکی کو جمہوریت اور ترقی کی پٹری سے اتارنے کی کوشش کی، لیکن ترک عوام نے خالی ہاتھ ہی بندوقوں، ٹینکوں اور ہیلی کاپٹر والوں کا شاندار مقابلہ کیا ۔ ترک عوام نے ایک بڑے اور خوفناک چیلنج کو سامنے دیکھ کر شتر مرغ کی طرح اپنی گردن ریت میں نہیں دبائی بلکہ اپنے محبوب لیڈر رجب طیب اردگان کی ایک اپیل پر گھروں سے نکلے اور فوجی سنگینوں سے بے خوف ہوکر ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے۔ چند گھنٹوں میں ترک عوام نے باغیوں کے ایک زبردست حملے کو ایسا ناکام بنایا کہ قائم مقام آرمی چیف تک یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’ترکی میں فوجی مداخلت کا باب ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا ہے‘‘۔وہ فوج جس نے ٹھیک ایک سو سال پہلے اتحادی افواج کو ناکوں چنے چبوادیے تھے، اس میں گھسے باغی عناصر اپنے ہی نہتے اور خالی ہاتھ عوام کا مقابلہ نہ کرسکے۔ دنیا میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ مسلح باغیوں نے نہتے عوام کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ ترکی کے اس واقعہ میں ناصرف جمہوریت مخالف تمام قوتوں کیلئے نشانیاں ہیں بلکہ جمہوریت کا نام لینے والوں کیلئے بھی سبق پوشیدہ ہے کہ اگر سیاسی قوتیں حکومت میں آنے کے بعد اپنے عوام کیلئے ’’ڈیلیور‘‘ کریں تو مشکل لمحات میں قوم بھی پھر گھروں میں دبک کر نہیں بیٹھ جاتی بلکہ ’’اپنی‘‘ حکومت کو بچانے کیلئے آتش نمرود میں بھی کود نے سے خوف نہیں کھاتی۔
قارئین کرام!! ترکی میں بغاوت کرنے والے فوجی ٹولے کے خلاف جس طرح عوام سڑکوں پر نکلے، ترک جوان جس طرح سینہ تان کے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور جس طرح ترک خواتین ڈنڈے لے کر ٹینکوں پر چڑھ دوڑیں، اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکی اب یورپ کا مرد بیمار نہیں کہ جو مرضی اُسے روند کر گزر جائے۔ ثابت ہوگیا کہ سرزمین ترکی اتنی بانجھ نہیں ہوئی کہ چند افراد اٹھیں اور کروڑوں لوگوں کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرکے اپنی مرضی مسلط کردیں اور پھر اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے عوام کی مرضی کے برعکس فیصلے کرتے پھریں۔ ترک عوام نے حقیقت میں آمریت کا سر کچل اپنے حصے کا کام کردیا اور اب اپنے خدمت، ترقی اور خوشحالی کے سفر کو مزید تیز کرکے اردگان کو ترک عوام کا قرض چکانا ہوگا!

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن