کراچی (سٹاف رپورٹر)آبی ماہرین نے کہا ہے کہ 40 سال سے زائد عرصے سے پاکستان میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا، تاہم آبادی میں اضافے کے پیش نظر غذائی اور پانی کی ضروریات بے تحاشا بڑھیں، ان حالات میں ڈیموں کی تعمیر کی مخالفت کرنا اس ملک کا سب بڑا المیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال کے 6 مہینے ہمیں پانی کی قلت اور باقی مہینوں میں سیلابی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ پاکستان وافر پانی کے مضمرات سے تو اثرانداز ہو رہا ہے تاہم اس کے ثمرات سے محروم ہے، موجودہ سیلابی سیزن میں بپھرے ہوئے دریائوں کو قابو کرنے کا واحد طریقہ نئے آبی ذخائر کی تعمیر ہے۔ اس ضمن میں معروف آبی ماہر اور سابق سیکرٹری زراعت و آبپاشی کیپٹن (ر) عارف ندیم نے بتایا کہ سال میں 365 دن میں صرف 70 دن وافر پانی دستیاب ہوتا ہے، تاہم بدقسمتی سے ہر برس 30 سے 35 ملین ایکڑ فٹ میٹھا پانی سمندر میں پھینک کر ضائع کردیا جاتا ہے۔ اگر بھاشا ڈیم اور داسو جیسے آبی منصوبے بنے ہوتے تو پاکستان کو خشک سالی کے موسم میں بھی پانی کی قلت کا سامنا نہ کرناپڑتا۔ فارمرز ایسوسی ایٹس پاکستان کے ڈائریکٹر حامد ملہی نے کہا کہ پرانے ڈیموں میں سلٹ جمع ہونے سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی بہت کم ہوچکی ہے کیونکہ گزشتہ 42 برسوں میں ملک میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔