تاریخ کے جھروکوں سے !

تاریخ کا سیل رواں کبھی رکتا نہیں ، یہ جاری و ساری رہتا ہے یہ الگ بات کہ ایک ہی واقعہ کو مورخین مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں ۔ تعصب کی عینک لگا کر یا اتار کر ! مثال کے طور پر ہندوستان پر محمود غزنوی کے سترہ حملے ایک حقیقت ہیں کچھ م¶رخین اسے بت شکن سمجھتے ہیں۔ بعض ایسا نہیں سمجھتے ان کے نزدیک اس یکطرفہ یلغار کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کی تعریف کرتے ہوئے کچھ مورخین زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ متشرع ، عزم و ہمت کا بدر منیر ، درویش منش، فرشتہ صفت، جو شاہی خزانے سے ایک دمڑی تک اپنی ذات پر خرچ نہ کرتا تھا۔ ٹوپیاں بُن کر گزارا کرتا تھا ۔ دیگران جن میں اس کے والد گرامی بھی شامل تھے ۔ اسے ناخلف ، ظالم، جفاجو ، کینہ پرور گردانتے تھے ۔ تاریخ کا تعصب اس وجہ سے بھی ہے کہ مورخین کے حاکمان وقت سے مفادات وابستہ تھے۔ شہنشاہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق تاریخ قلمبند کرواتے ،مذہب کا رول بھی اہم تھا۔ مسلمان ، ہندو اور عیسائی مورخین واقعات لکھتے ہوئے اپنے عقیدے کو الگ نہ رکھ سکے۔ گویا بہت کم ہیں جنہوں نے نمایاں مقصدیت کے ساتھ تاریخ لکھی!
ہندوستان کی پانچ ہزار سالہ تاریخ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی!رام چندر ، چندر گپت موریہ ، اشوک، کنشک، سکندر یونانی کی آمد مہاتما بدھ التمش مسلمان حملہ آور، محمود غزنوی، غوری، خاندان مغلیہ اس سے پہلے کے مسلمان حکمران جن میں التمش ، ایبک ، محمد تغلق وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
ایک محدود کالم میں پوری تاریخ تو نہیں لکھی جاسکتی۔ محض چند دلچسپ واقعات رجحانات اور میلانات کی نشاندہی مقصود ہے۔ رام چندر جی کو ہندومت میں پرمیشور، پروردگار مانا جاتا ہے۔ ان پر مستند کتاب رامائن بالمیک جی نے سنسکرت میں لکھی۔ پھر تلسی داس نے ہندی میں ان کے حالات زندگی لکھے۔ پہلی کتاب منظوم ہے جبکہ دوسری نثر میں لکھی گئی ہے ان کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی انسانی جذبات ، خیالات، محسوسات وہی تھے جو آج ہیں۔ وفا ، ایثار ، اطاعت، حسد ، بغض ، عناد، کینہ پروری ، محلاتی سازشیں اور خیر وشر کا ٹکراﺅ ! کس طرح ایک رانی اپنے بیٹے کو تخت پر بٹھانے کے لئے سازشوں کے جال بنتی ہے۔ سوتیلے بیٹے (رام چندر ) کو بن باس دلواتی ہے۔ وفاشعار بیٹا باپ کے وچن کا پالن کرتا ہے ۔ برضا و رغبت جلاوطنی اختیار کرتا ہے۔ جلاوطنی کے دن گو کٹھن تھے مگر وہ عزم و استقلال کے ساتھ گزارتا ہے۔ اس دوران خیر و شر کی طاقتیں برسر پیکار ہوتی ہیں ۔ لنکا کا حاکم راون ان کی دھرم پتنی سیتا کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔ وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ فتح بالآخر حق کی ہوتی ہے آج تک جتنی بھی دیو مالائیں لکھی گئی ہیں ہندو مائیتھالوجی سب سے زیادہ دلچسپ اور کٹھن ہے۔ پہلے تو اس میں داخل ہونا مشکل ہے۔ باالفرض کوئی داخل ہو جائے تو پھر اس کے لئے باہر نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
سکندر یونانی گو تھوڑے عرصہ کے لئے آیا مگر اس کے حملے کے دورس اثرات مرتب ہوئے۔ عقل حیران ہوتی ہے کہ بیس سال کے لڑکے نے تیرہ سال کے اندر آدھی دنیا فتح کر لی۔ جہاں کہیں بھی وہ گیا یونانی تہذیب نے کسی نہ کسی رنگ میں وہاں پر اپنے اثرات چھوڑے۔ اُس کا باپ فلپ ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حاکم تھا۔ سکندر اس کی پہلی بیوی اولیپمیاس سے تھا۔ کسی وجہ سے ان میں ناچاقی ہوگئی اور فلپس نے قلو پطرہ نامی عورت سے شادی کر لی (یہ مصر والی قلو پطرہ نہ تھی) ولیمہ کے دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ دلہن کے ماموں ATTALOS نے نشے کی حالت میں حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے ایک اشتعال انگیز بات کہہ دی بولا آو¿، ہم سب ملکر دعا کریں کہ خدا فلپ کو جائز وارث تخت عطا فرمائے۔ اسکے نزدیک سکندر فلپ کی ناجائز اولاد تھا۔ یہ شک آمیز الفاط سکندر کیلئے ناقابل برداشت تھے۔ اس نے پاس پڑا ہوا گلدان اٹھا کر اس کے منہ پردے مارا۔ فلپ تلوار سونت کر سکندر کی طرف بڑھا مگر ٹھوکر کھا کر گر پڑا۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد وہ قتل کر دیا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس سازش میں سکندر اور اس کی ماں شریک تھے۔ سکندر تخت پر بیٹھا تو اس کی نظریں مشرق کی جانب مبذول ہو گئیں۔ وہ ایک ملٹری جئینیس،مدبر و منظم تو تھا ہی اس کی خوش قسمتی تھی کہ اسے ارسطو جیسا استاد ملا۔ ارسطو نے اسے اپنے جذبات پر قابو پانے کا گُر سکھایا۔ وگرنہ وہ ایران سے آگے نہ بڑھ پاتا۔ افسانہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو کر عملاً مفتوح بن جاتا۔
سکندر پنجاب سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کی فوج تھک کر نڈھال ہو چکی تھی۔ راجا پورس کی شکست کے بعد جو ڈائیلاگ ان دونوں سے منسوب ہیں، وہ ڈرامائی ضرور ہیں لیکن اس میں اچنبھے والی کوئی بات نہیں ہے۔ سکندر ان خطرات سے بخوبی آگاہ تھا جو پورس کو مروانے کی صورت میں پیش آ سکتے تھے۔ ایک حکمت عملی کے ما تحت اس نے پورس کا دل جیت لیا۔
واپسی پر سکندر نے وہ راستہ اختیار نہ کیا جس سے وہ ہندوستان پہنچا تھا۔ فوج تین حصوں میں تقسیم کی گئی۔ کچھ سمندر کے راستے کچھ براستہ درہ بولان لیکن بیشتر گڈ رویہ (مکران) سے گزری۔ سفر سے قبل اسے بتایا گیا کہ یہ نہایت دشوار گزار، خطرناک اور بے آب و گیاہ علاقہ ہے۔ فوج کی پیش قدمی رک جائے گی اسے یہ بھی بتایا گیا کہ قبل ازیں اس علاقے میں ساہرسٹن اور سمارامس کی فوجیں تباہ و برباد ہو گئی تھیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی خطر پسند جبلت پر قابو نہ پا سکا کچھ عرصہ بعد ہی اسے احساس ہو گیا کہ چار سو موت اپنے مہیب جبڑے کھولے کھڑی ہے۔ تمازت آفتاب سے پتا پانی ہوتا تھا۔ پانی نایاب ،خوراک کی کمی، ریت کی عمودی دیواریں، حشرات الارض کی فوج ظفر فوج، خونخوار جنگجو قبیلے، جو اچانک پہاڑوں سے نکل کر حملہ کرتے اور بھاری نقصان پہنچا کر آناً فاناً غائب ہو جاتے، کبھی پیاس سے سپاہی مر جاتے۔ اگر کہیں پانی ملتا تو زیادہ پینے سے دم توڑ دیتے۔ مورخ ARRAIN لکھتا ہے کہ فوج میں ڈسپلن ختم ہو گیا۔ سپاہیوں نے گھوڑے مار ڈالے۔ چار سو نفسا نفسی کا عالم تھا۔ ایک مرتبہ فوج ایک پہاڑی کے نیچے خیم زن تھی کہ رات کو اچانک بارش ہو گئی۔ رودکوہیاں سپاہیوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گئیں۔ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سکندر نے گھوڑے سے اُتر کر پیدل چلنا شروع کر دیا۔ (باقی آئندہ)

ای پیپر دی نیشن