دو آراءمیں الجھے ذہن۔۔۔۔

دو آراءکے درمیان صحافتی ذہن الجھ چکے ہیں‘25جولائی ‘ روز انتخاب پر دو مضبوط عوامی آراءاور جمہوری تسلسل کے تحت منتقلی اقتدار کے ساتھ جمہوری حکومتوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں ‘پر تذکروں اور تجزیوں نے ماحول کو دھندلا رکھا ہے لیکن یہ حقیقت بہر حال تسلیم شدہ کہ اسلام آباد کے با خبر حلقوں کی انگلیاں عوام کی نبض پر نہیں ہو تیں‘ نواز شریف اور محترمہ مریم نواز جیل پہنچ چکے ہیں ‘اس پر اسٹیبلشمنٹ پر اتنی تنقید سمجھ سے بالا تر اور تعجب زدہ بھی ہے ‘کیا بھارت اور بنگلہ دیش کے ” تعصب“ کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مہم جوئی کوئی خوبصورت رنگ دکھا سکے گی ؟ یقینا ایسا نا ممکن ہے ‘ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ پانامہ لیکس سکینڈل پر نواز شریف کی نا اہلی سے لےکر نیب کے ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلے اور ان کے اپنی صاحبزادی سمیت جیل میں پہنچ جانے پر قومی افق پر قلمی دسترس رکھنے والوں کی اکثریت نے جمہوری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین مبینہ کھینچا تانی کو جواز بنا کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ‘اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ڈیڑھ سو سالہ جمہوری تاریخ میں امریکہ اور بھارت جس کے تذکرے زد عام رہتے ہیں ‘ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے منتخب ہونے کے محرکات کیسے نظر انداز کئے جا سکتے ہیں ؟ اس ضمن میں ڈان لیکس ذہن نشین رکھتے ہوئے پرویز مشرف پر آرٹیکل 6کی تلوار کے موضوع کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ‘سچ پوچھیئے تو ایک معروف آئین اور قانون دان کے فلسفہ کہ ہاتھی کو عوام کے پر زور اصرار پر گولی مار دی گئی ‘ کے تحت شاید نیب نے بعض قانونی ماہرین کے مطابق نواز شریف کو ایون فیلڈ کیس میں سزا دی ہے ‘ یہ تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ ہمارے ملک میں حکومت گرانے اور بنانے میں مقتدر قوتوں کا ہاتھ رہا ہے لیکن اس پر کیا کہیں کہ جمہوری حکمران بار بار اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارتے ہیں ‘ نواز شریف کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ انتخابی حلقوں میںانتخابی ماحول بتاتا ہے کہ 25جولائی کو نہیں بلکہ اس کے بعد ہو گا ‘آئندہ انتخابات کےلئے اپوزیشن کے طور پر تحریک انصاف اور 2013 سے انتخاب میں رہتے ہوئے ترقیاتی دعوﺅں کی صورت میں مسلم لیگ (ن) نے عوام کا جو ذہن بنا دیا ہے اس پر یقینا دو آراءموجود ہیں جبکہ نواز شریف کا بیانیہ کہ ووٹ کو عزت دو ‘جس کے تحت وہ جیل یاترا کررہے ہیں ‘ الگ موضوع بن چکا ہے اس کے سارے اثرات آئندہ قائم ہونے والی حکومت اور پارلیمنٹ پر مرتب ہونگے ‘جبکہ قومی سیاست کے نئے راستے اور مناظر سامنے آ سکےں گے ‘سب کو با خوبی علم ہے کہ ان دنوں نون اور جنون میں اتنا سخت انتخابی مقابلہ بن چکا ہے کہ ا س کے کارکنوں کے علاوہ ووٹرز بھی جگہ جگہ بحث و تکرار میں مصروف ہیں‘ اتنا تلخ سیاسی رد عمل ہماری ملکی تاریخ میں کم دیکھنے کو ملتا ہے ‘اس لئے اپنے اپنے طئیں تجزیوں ‘تبصروں اور دعوﺅں کی بھر مار نے الجھا رکھا ہے ‘آپ یقین جانئے کہ عام آدمی یہ کہتا سنائی دے رہا ہے کہ 2013ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) بھی ایسے ہی کسی خلائی مخلوق کے تعاون سے اقتدار میں آئی تھی لیکن اس سارے تناظر میں ملک کے دفاعی اداروں پر اس حد تک تنقید کہ مضامین میں سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں کہ وزیراعظم بننا درست ہے ؟ حیرت کو دو چند کرتا ہے کیونکہ 2013ءکے بعد آپ دیکھیئے کہ ووٹ کی عزت کی اس وقت تک بات نہیں ہوئی جب تک معاملہ نا اہلی اور نیب میں ریفرنسز کی سماعت تک نہیں پہنچا‘ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ‘کے مصداق آج عام آدمی کہتا پھر رہا ہے کہ انتخابات کے روز تک اس کی موج لگی ہوئی ہے‘ وہ انتخابی امیدواروں کے دفاتر میں صبح کے ناشتے سے رات تک کا کھانا کھا رہا ہے ‘گویا ثابت ہو تا ہے کہ پاکستان جس کا مستقبل جمہوریت میں پوشیدہ ہے اور بد ترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوا کر تی ہے ہمارے وطن عزیز میں جمہوری حکمران عوام کی محرومی ‘غربت دور کرنے میں ناکام ہے ‘سٹیٹ بنک کے گورنر طارق باجوہ کی پریس کانفرنس پڑھیئے ‘شومئی قسمت موصوف فرماتے ہیں کہ ملک ادھار پر چل رہا ہے ‘پاکستان کے غریب عوام آ ج بھی قومی سطح پر زیر بحث نہیں آ رہے ‘ ہم بار بار سیاسی جماعتوں ‘ان کے قائدین کو ہیرو بناتے اور پیش کرتے ہیں لیکن عام آدمی کی محرومی کا تذکرہ اکثر فراموش کر جاتے ہیں ‘فوج پر تنقید ہو تی ہے لیکن دہشتگردی کے بڑھتے واقعات اور اسکے قلع قمع کےلئے اس کی قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں ‘یہ بھی نہیں سوچتے کہ آج دشمن ہمارے ملک میںمنتقلی اقتدار کے جمہوری عمل کو روکنے کےلئے جن سازشوں میں مصروف ہے اس کا مقابلہ اور خاتمہ ہم نے اپنے فوجی جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر کرنا ہے ‘1970ءمیں ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہنے سے منحرف ہو کر بھر پور عوامی پذیرائی کے بعد اقتدار میں آ گئے ‘بھٹو کے بعد نواز شریف کو جنرل جیلانی اور ضیاءالحق اقتدار کی سیج پر سجا گئے ‘ آج عمران خان کی ممکنہ باری ظاہر کی جا رہی ہے ‘ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اس سارے اقتدار کے کھیل میں کیا ہم نے اپنے ملک کے اندر جمہوریت کے تحت انتخابی عمل کو کروڑ اور ارب پتی لوگوں کےلئے چسکے کا کھیل نہیں بنا دیا ‘ جس میں غریب اور متوسط طبقہ مسلسل نظر انداز ہے‘ جمہوری حکمرانوں کو بہت پہلے اقتدار میں عوام کی شمولیت کو یقینی بنانے اور اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار میں اس کا دفاعی اعتبار سے آئینی اور قانونی حصہ دے دینا چاہیے تھا ‘ جمہوری حکمرانوں کو کرپشن سے بھی باز رہنا چاہیے تھا اور اقتدار کے کھیل کو محض اپنے مفادات کا آسیر نہیں بنانا چاہیے تھا ‘عوام کی خط غربت اور بنیادی ضروریہ زندگی کے پیش نظر محرومیوں کا خاتمہ کرنے کےلئے قانون سازی اور عملی اقدامات اٹھانے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور آج ایک مرتبہ پھر نواز شریف کی صورت میں ووٹ کو عزت دوکے نعرے چل رہے ہیں اور ان کے بقول تحریک چل رہی ہے ‘حالیہ سوچوں کا ٹکراﺅ دو زاویوں سے درپیش ہے ‘ایک عوامی سطح پر کم از کم پنجاب میں مسلم لیگ (ن) مد مقابل تحریک انصاف ہے جس کا سارا پس منظر حالیہ تاریخ ہے ‘جبکہ دوسرا ٹکراﺅ ریاستی اداروں کے خلاف بیان کیا جا رہا ہے جس میں ریاست کے چوتھے ستون صحافت کی بھی دخل اندازی فطری ہے ‘ لہذا عام فارمولے کے تحت ریاستی اداروں ‘ جمہوری حکومتوں ‘ سیاسی جماعتوں اور عوام کو وسیع تر ملکی مفاد میں زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے اور قدم اٹھانے ہونگے ‘اس وقت سی پیک اور روس کےساتھ بڑھتے معاشی تعلقات پر دشمن دہشتگردی کے واقعات کی صورت میں جمہوری تسلسل کو انتخاب اور منتقلی اقتدار کی صورت میں خدانخواستہ روکنا چاہتا ہے ‘لہذا یکجہتی اور قومی مفاد کو مقدم رکھنا سب سے اولین ترجیح ہونی چاہیے ‘صحافتی ذہن بھی جس مرضی آراءپر کار بند ہوں ‘ عوام کی نبض شناسی قلم میں سیاہی کی صورت میں لیس ہونی چاہیے ۔

ای پیپر دی نیشن