قارئین بات خواتین کی حقوق تلفی کی ہو یا انسانی حقوق تلفی کی ہو ہر لمحہ، ہر طرف سے اذیت رسانی کاعمل جاری ہے وجہ یہ کہ سائنس کے موجودہ تیکھے پن اور تیزی طراری سے کسی کو مفر حاصل نہیں ہے۔ اِسکے اثرات سے بچنا محال ہے دُنیا کے کسی کنارے پرکوئی خبر بنی، اُڑی اور سب تک پہنچ گئی ہم سمجھتے ہیں احساسات کے مارے لوگوں کیلئے وہی دور بہتر تھا جب وہ حادثات و واقعات سے لاعلم رہ کر ہنسی خوشی زندگی گزارتے تھے۔ لاعلمی اور جہالت کا طعنہ قابلِ برداشت تھا اب علم و معلوم کے حوالے سے جو جو کچھ سامنے آ رہاہے وہ سراسر ناقابلِ برداشت ہے۔ ہر روزاخبارات میں ایسی ایسی اندوہناک و دردناک بلکہ حیرت ناک خبریں موجود ہوتی ہیں کہ اگر اُنہیں پڑھ کر پڑھنے والا خوش قسمتی سے اپنے حواس نہ کھودے تو اللہ کا بڑا کرم سمجھاجاتا ہے۔ ہم بھی اگر آج جہالت کے اندھیرے میں ہوتے تو کم از کم ہر روز کئی معصوم بچیوں اور خواتین کے ساتھ درندگی کی خبر پڑھنے اور احساس کی سُولی چڑھنے سے بچ سکتے تھے، بات ہماری کمزور قوتِ برداشت کی نہیں ہے صدمہ بے حِس مردانہ معاشرے کا ہے جو اِن خبروں کو مردانہ وار برداشت کر کے صبح صبح گرم چائے پی کر اپنے کام کاج کیلئے نکل جانے میں اپنی عافیت سمجھتا ہے اس کو کسی سے کیا لینا دینا، کسی کے لئے کوئی کیوں اپنا خونِ جگر جلائے اور جلائے بھی تو کیا فائدہ؟ اپنی کتابِ مکمل و برحق کے اس فرمان پر کوئی کیوں غور کرے جس میں واضح طور پر درج ہے:۔
”اور مسلمانوں میں ایک جماعت ضرور ایسی موجود رہے جو لوگوں کو حق کی طر ف بُلاتی رہے اور بدی سے خبردار کرتی رہے“ سب سمجھتے ہیں ایسے واقعات کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے جو ہونا ہوتا ہے ہو جاتا ہے لیکن اگر سب کی سوچ اِس ڈگر پر آ گئی تو پھر ان درندوں سے اُن کی درندگی کے بارے میں کون جا کر پوچھے گا کہ اُن کو کون سا تمغہ دیا جائے؟ اِس حوالے سے ڈاکٹروں کی طرف سے بچیوں کی جان بچانے کی سرتوڑ کوششوں کا ذکر بھی ہوتا ہے لیکن تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ نیم جان کلیاں بچ بھی جاتی تو اُنہیں کون قبول کرتا؟ اُنہیں مزید کونسے سُرخاب کے پَر لگ جاتے؟ جبکہ عوام کا مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وکیلوں کے ذریعے اِن درندوں کو بچانے کی سرتوڑ کوششوں کا موقعہ دینے کے بجائے عدالت، پولیس اور پورا معاشرہ مل کر براہِ راست اِن درندوں کا سرتوڑنے اور اُسے سنگسار کرنے پرساری توجہ مرکوزکرے تاکہ آئندہ کیلئے اس نوعیت کے جرائم کی جڑ ختم کی جا سکے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اِاخلاقی گِراوٹ کے اُس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں عورتوں کو معمولی معمولی باتوں پر جلا ڈالنا، اُنکی چوٹی اور ناک کاٹ ڈالنا یا اُن کو دیگر کئی قسم کے گھناﺅنے تشدد اور ظلم و زیادتی کا نشانہ بنانا روزمرہ کے معمولات میں شامل ہو چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں قیامت کے جلد آنے کی دُعا ہی کی جا سکتی ہے تاکہ سب کا حساب براہِ راست جلد برابر ہو سکے باقی ممالک میں ایسے جرائم کی سزاﺅں کے بارے میں ہماری زیادہ تر معلومات یہ ہیں کہ فوراً انصاف مہیا کر دیا جاتا ہے جبکہ اپنے وطنِ عزیز میں ہم نے کبھی ایسے مجرم کو عبرتناک سزا بھگتتے ہوئے نہیں دیکھا نہ ہی ایسے اندھے ظلم و جُرم کے حوالے سے کسی مرد کو بھرے چوک میں سنگسار ہوتے یا عورتوں کو جلانے والوں کو آگ کے شعلوں میں انگارے کی طرح دہکتے دیکھا ہے جبکہ ہر دوسرے دن اخبارات میں جلی ہوئی عورتوں کی تصاویر اور خبریں بطورِ سنگھار جَلی حروف میں سجی نظر آتی ہیں۔ حیرت تو یہ ہے کہ خبر ہمیشہ عورت پر تشدد کی یااُسکے قتل کی ہوتی ہے۔ اُسکے قاتل اور تشدد کرنے والے کی تصویر اُتارتے وقت مارے صدمے کے کیمرہ مین کا کیمرہ ہِل جاتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ ایسے شوہروں کی تصویر دیکھی ہے جو بیوی کو جلانے کے بعد اُسکے جنازے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ پچھلے سال سمندری میں ایک آٹھ سالہ ”گونگی بہری“ لڑکی کے ساتھ ایسے واقعے کو ہم نے اپنے ایک بیان کے ذریعے ”گونگے بہرے“ معاشرے کے منہ پر ایک بھرپور طمانچہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ واقعے کا نوٹس لیا جائے مگر نوٹس لیتا کون؟ معاشرہ بے حِس ہو اور پھر صرف مردانہ ہو تو طمانچے اُس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ معاملہ حسبِ معمول لپیٹ سمیٹ دیا گیا تو اُسکاقاتل پھانسی پر جُھولا نہ ہی اُسکی تصویر اُتر سکی جبکہ اُس تصویر شدہ تصدیق شدہ قاتل کے سنگسار ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خود کو خود کون سنگسار کر سکتا ہے؟ غالب مردانہ معاشرہ ہے خود کو ہمیشہ بچا لیتا ہے۔ کس قدر دردناک حقیقت ہے کہ مرد اور عورت کو مساوی حقوق عطا کرنے والے واحد مذہب، مذہبِ اسلام کے رکھوالوں ہی کے ملک میں عورت اور مرد کی زندگی میں انصاف کا تول برابر نہیں رکھا جاتا۔ اِنصاف کے ترازو کے ایک پلڑے میں اگر عورت پر ظلم وتشدد کا ہمالیہ رکھا ہوتا ہے تو دوسری طرف وزن میں برابری کیلئے ”برف کے باٹ“ رکھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر عورتوں کے حقوق کے بلکہ اُنکے ان قاتل درندوں اور شیطانوں کے بارے میں دو حرف لکھ بھی دئیے جائیں تو شور پڑ جاتا ہے کہ خبردار سنگسار کرنے کیلئے مجرم کوہاتھ نہ لگایا جائے، پتھر ہاتھ میں نہ اُٹھائے جائیں پہلے مذہب کو اچھی طرح گھنگال لو حالانکہ کتابِ اول و آخر میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے اور جان کی کوئی جنس نہیں ہوتی وہ نہ مونث ہوتی ہے نہ مذکر ہوتی ہے، بس صرف جان ہوتی ہے جس کا جسم سے نکلنا سب کے لئے کڑا ترین وقت ہوتا ہے بلکہ ایسے جان سوز حالات پڑھ پڑھ کر ہمارا مطالبہ تو یہ ہے کہ بہتر ہے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگورکر دینے کی رسم کو پھر سے زندہ کیا جائے تاکہ ایسے تمام تر جرائم کا ازخود سدِباب ہو جائے۔ ذاتی طور پر ہم سمجھتے ہیں ایسے حادثات پر مردانہ معاشرے کی بے حِسی کی وجہ اُسکی یہ سوچ بھی ہو سکتی ہے کہ اِس نوعیت کے جرائم کو دُہرا دُہرا کر معاشرے کی ہر دوسری عام بُرائی کی طرح معمول کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ اس پر باضمیر لوگوں کا ردعمل ممکن نہ رہے اور وہ اُسے ایک ”تسلیم شدہ حقیقت“ کے طور پر تسلیم کرنے لگیں۔ قارئین جب حالات اِس نہج پر پہنچ جائیں تو پھر عذابِ الٰہی کی نوید کچھ یُوں آئی ہے کہ....
”اور جو ہماری قول اور قیامت کو جُھٹلائیں ہم نے اُن کیلئے تیار کر رکھی ہے بھڑکتی آگ کی مہمانی....جو اُنہیں دُور سے دیکھے گی تو وہ سُنیں گے اُسکا چنگھاڑنا اور جوش مارنا اور جب وہ اس کی کسی تنگ جگہ میں دائم ڈالے جائیں گے، شعلوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تو وہاں موت مانگیں گے تب فرمایا جائے گا آج ایک نہیں بہت سی موتیں اکٹھی مانگو لیکن آج ایک قضاءکے بعد دوسری قضاءنہ آئے گی“ (القرآن)