اسلا م آ با د(آن لائن) پا کستا ن میں تعینا ت افغا ن سفیرڈاکٹر عمر ذخیل وال نے کہا کہ پا کستا ن اور افغانستان کے درمیا ن موجودہ بد اعتمادی صرف پرانے واقعات کی وجہ سے نہیں بلکہ حالیہ مشکل پالیسیاں بھی اس کی ایک وجہ ہیں تاہم دونوں ممالک کو اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئے اپنی اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا جو صرف باہمی تعلقات سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹر ویو میں انہو ں نے کہا کہ آپس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے واحد طریقہ یہی ہے کہ آپس کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے اور ایک دوسر ے پر الزاما ت کی بجا ئے اعتما د سازی کو فروغ دیا جا ئے۔ مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک تو مسائل کی نشاندہی اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی ہی واحد حل ہے ۔آپس کے مسائل کو حل کرنے کے لئے واحد طریقہ یہی ہے کہ آپس کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے ،اچھے تعلقات افغانستان اور پاکستان کے مفاد میں ہیں یہ ضرور ی ہے کہ دونوں ممالک کا آپس میں بھروسہ اور اعتماد ہوتب ہی خوشگوار اور دوستانہ تعلقات ممکن ہیں۔موجودہ بد اعتمادی صرف پرانے واقعات کی وجہ سے نہیں بلکہ حالیہ مشکل پالیسیاں بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔دونوں ممالک کو اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئے اپنی اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا جو صرف باہمی تعلقات سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔افغانستان کو اس وقت جنگ کا سامنا ہے اور پاکستان کو بھی سکیورٹی اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے ،ماضی میں اس ایشوز پر ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا جس سے ہم نے بہترین اقدامات اٹھائے،ہم نے کوشش کی کہ کسی بھی معاملے پر الزام تراشی سے گریز کیا جائے ،ایسے الزامات کو عوام کے سامنے نہیں لانا چاہیے۔ دونوں ممالک کو قریب لانے میں ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ میڈیا پر ایک دوسرے پر الزام تراشی بند ہو گئی ۔اب فون اٹھاتے ہیں ایک دوسرے سے بات چیت کرلیتے ہیں۔دونوں ممالک کے درمیان 45 منٹ کا فضائی راستہ ہے بہتر یہ ہے فلائٹ پکڑیں اور ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ جائیں یہ بات واضح ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا تعین ہمارے ریاستی ادارے نہیں کر سکتے یہ پبلک ٹو پبلک رابطے کے ذریعے ہی ممکن ہے ،دونوں ممالک کا کلچر،تاریخ اور ورثہ مماثلت رکھتا ہے۔دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان تعلقات جتنے بھی کشیدہ رہیں لیکن عوام کا ملنا جلنا رہتا ہے،روزانہ ہزاروں لوگ سرحد کے دونوں جانب آتے جاتے رہتے ہیں۔پاکستان وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کے لئے گیٹ وے بن سکتا ہے لیکن یہ افغانستان کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ تمام راستے افغانستان سے ہی گزر کر جاتے ہیں۔سی پیک اور کاسا منصوبہ پاکستان کی معیشت کو تبدیل کرسکتا ہے ان منصوبوں کو وسطی ایشیاءممالک تک بڑھانا ہوگااور اس کا فائدہ افغانستان کو بھی ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں افغان سفیر نے کہا کہ بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان سے دوری ہوگی ،پاکستان سے تعلقات بھارت سے تعلقات سے کہیں زیادہ اہم ہیں،اس حوالے سے2018 بہت مشکل سال تھا لیکن ہمارے حوصلے پست نہیں ہوئے کیونکہ ہم نے پرانی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔داعش سے بہت سے خطرات لاحق تھے لیکن قوت کے طور پر سامنے نہیں آ سکی اس وقت طالبان کے ساتھ جنگ لڑنے میں مصروف ہیں ۔ جب ہم ان سے نمٹ لیں گے تو داعش بھی ختم ہو جائے گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ داعش خطرہ نہیں بلکہ طالبان خطرہ ہیں ،پاکستان میں آپریشن ضرب عضب کی بنیاد پر بہت سے طالبان نے افغانستان کا رخ کیا جس پر ہمارا کنٹرول نہیں۔کوئی ایک ملک کچھ نہیں کر سکتا دونوں ممالک ملکر تمام چیلنجز سے نمٹ سکتے ہیں،ہماری فوج بہت با صلاحیت ہے طالبان ایک خطرہ ہیں جن کے ساتھ انہوں نے بہترین انداز میں نمٹ رہے ہیں،افغان عوام اور فوج نے اس جنگ میں بہت سی قربانیاں دی ہیں،داعش اس وقت یورپ پر حملے کر سکتی ہے ،بدقسمتی سے افغانستان میں بھی حملے کررہی ہے ۔ایک سوال کے جواب میں افغان سفیر نے کہا کہ ہم سرحدی باڑ لگانے پر یقین نہیں رکھتے ،لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی نہیں لگنی چاہیے 21 ویں صدی میں یہ طریقہ کامیاب نہیں بلکہ ہمیں اس چیز پر کام کرنا چاہیے کہ دونوں ممالک کے لوگ آپس میں ملیں جلیں جس طرح یورپ میں ہوتا ہے ۔دونوں ممالک کے درمیان بہترین انٹیلی جنس شیئرنگ اس مسئلے کے حل کے لئے مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کئی سطح کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں لیکن بنیاد صرف پبلک ٹو پبلک رابطے سے ہی ہے اس میں سیاست بھی شامل ہوتی ہے اس کے بعد ریاستی ادارے آتے ہیں ،میری خواہش ہے کہ یہ تعاون فوجی تعلقات کے ساتھ منسلک نہیں ہونی چاہیے،ہمارے تعلقات تجارت ،کامرس،کلچر ،دیہی ترقی پر مبنی ہو۔افغان سفیر نے کہا کہ ہم تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور جلد ہی افغانستان کی فوج پورے ملک کی سکیورٹی کو سنبھال لے گی ،ہماری خواہش ہے کہ غیر ملکی فوج ہمارے ملک میں نہ ہو ،غیر ملکی افواج کی تعیناتی مسئلے کا حل نہیں ہے،طالبان کے ساتھ معاملات چل رہے ہیں جیسے ہی کامیاب ہوتے ہیں تو ان مسائل کو سالوں میں حل کرلیں گے ۔یہ معاملات کچھ دو اور لو کی بنیاد پر ہی ہوگا،مذاکرات میں کچھ پیچھے ہٹنا پڑتا ہے ،طالبان بھی ہمارے ہی لوگ ہیں ہم چاہتے ہیں وہ ہمارا حصہ بنیں۔ہم بھی چاہتے ہیں طالبان سیاسی عمل میں حصہ لیں ان کو عزت ملنی چاہیے،ان کو حقوق ملنے چاہیں جیسے عام عوام کو حاصل ہیں۔ایک اور سوال کے جواب میں افغان سفیر نے کہا ہماری شدید خواہش ہے کہ پاکستان میں رہنے والے افغان مہاجرین واپس آ جائیں اور اپنے ملک میں آزادی کے ساتھ زندگی گزاریں اور سیاست میں حصہ لیکر افغان پارلیمنٹ میں پہنچیں اور ملک کی خدمت کریں۔ایک اور سوال کے جواب میں افغان سفیر نے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں تبدیلی آرہی ہے جو خوش آئند ہے،پاکستانی سیاست پر افغانستان کی گہری نظر ہے ،امید ہے اس سیاسی تبدیلی سے پاکستان میں استحکام آئیگا اور نئے حکمران پاکستان اور اس کی عوام کیلئے بہترین ثابت ہوں گے۔انٹرویو کے دوران افغان سفیر نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر حامد کرزئی کو عوام لیکر آئی ،جون 2002 ءمیں95 فیصد ووٹ لیکر منتخب ہوئے۔
افغان سفیر