ایک گزارش

جی ،وہی میرا ، انگریزی والی۔۔ میرا دوست سمجھ رہا تھا کہ میں اْس سنسنی خیز صحافی کو شاعر میرا جی سے ملا رہی ہوں۔اس کی تصیح کی تو ایک سینئر صحافی نے کہا اس غدار کو میرا بے چاری سے کیوں ملا رہی ہو ۔میرا توغدار نہیں۔ میں نے کہا میں اْس صحافی کو بھی غدار کہا ں کہہ رہی ہوں ، میری یہ مجال کہ میں یہ ٹائٹل بانٹتی پھروں اور اْسکی یہ اوقات کہ وہ یہ ٹائٹل وصول کرے کیونکہ اس لفظ کی تاریخ ، ہمارے ملک کی ڈانواڈول تاریخ میں ، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک با بصیرت اور باتدبیر بیوروکریٹ ، فوجی یا سیاستدان نے راج کیا ہے، وہاں اس لفظ غدار کو ایسا مس یوز کیا گیا ہے کہ وہ بھی ایک اعزاز بن گیا ہے۔ جسے غدار کہا جاتا ہے ، وہی مشہور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو ماضی میں جنہیں غدار کہا گیا وہ سارے ہی بے قصور نہ تھے کئی سچ میں غدار تھے اور میں آج تک حیران ہوں کہ انہیں ملک توڑنے کیلئے اتنی ڈھیل دی ہی کیوں گئی۔۔ اگر اندرا گاندھی ، گولڈن ٹیمپل میں گھس کر علیحدگی پسند سکھوں کاقلع قمع نہ کر دیتیں تو آج بنگلہ دیش کے ساتھ ایک خالصتان بھی دنیا کے نقشے پر جگمگا رہا ہوتا اور وہاں بھی سکھ حضرات ، بنگالیوں کی طرح زیادہ آزاد ، زیادہ پرسکون زندگی گزار رہے ہو تے۔ مگر اندراگاندھی نے ہندوستان سے الگ ہونے کی خواہش کو ، غداری کہا ، سمجھا اور اسی حساب سے اس کا خاطر خواہ علاج کیا۔ ہم نے پاکستان کے غدار مجیب الرحمن کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور آج اس کی بیٹی ہمارے منہ پر تھپڑ مارتے ہو ئے کہتی ہے کہ تم لوگ جو سمجھ رہے تھے ، میرا باپ وہی تھا۔ کیونکہ آج وہ یہ اقرار کرتی ہے تو بنگالیوں کا ہیرو مجیب الرحمن بنتا ہے۔ تحریک کامیاب ہو جائے تو غدار، ہیرو بن جاتے ہیں۔ لیکن کیا اگر تلہ سازش محض ایک واہمہ تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں ، یہ آزادی نہیں کہ علیحدگی پسندوں کو اتنا چوڑا کیا جائے کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر علیحدگی کی باتیں بغیر کسی خوف کے کرتے جائیں اور ہمارے ان صحافیوں جیسے ہلہ شیری کے ماہر ین ان کو بلا بلا کر یہ موقع دیں کہ وہ پاکستان کے اداروں کیخلاف بک بک کریں اور یہ بڑی بڑی مونچھوں تلے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا دبا کر مزے لیں۔ کیا ایسا دنیا میں کہیں بھی ممکن ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ یا کینڈا میں بھی نہیں۔۔ صحافت کی آزادی کا یہ عالم ہے کہ کینیڈا جیسے ملک میں بیٹھ کر بھی میں کسی ایسے پرو جیکٹ ، کسی ڈرامے میں کینیڈا کی کوئی ایسی چیز دکھائیں جس سے یہاں کا امیج خراب ہو۔۔ گورنمنٹ فنڈنگ ملنا مشکل یا ناممکن ہو جاتا ہے۔۔ تو اب آپ بتائیے آزادی صحافت کے نام پر پاکستان میں سنسنی خیزی اور ڈرامے بازیوں کا جو رحجان چل رہا ہے وہ سوائے ایک اور جہالت کے کیا ہے جتنا پاکستان کا میڈیا اپنے ہی ملک کی ایک ایک خامی کو ، کمزوری کو جی بھر کر اچھالتا ہے اتنا کسی اور ملک کا میڈیا کرتا ہے تو میرے علم میں اضافے کیلئے مجھے بتایا جائے۔دوسرے ملکوں میں بیٹھے بلوچ لیڈراور ہمارے آپکے دلارے الطاف بھائی ، کیا کیا نہیں ملک کے ہی خلاف پاکستان کے میڈیا میں کہتے رہے۔ کیا یہ آزادی کسی اور ملک کے انتشار پسندوں اور دہشت گردوں کو ملتی ہے۔ یہ تو تھی غداروں کی بات اور ان کے علاج معالجے کی۔ میں اس صاحب کو یا ان جیسے دوسروں کو غدار بھی نہیں کہوں گی وجہ اوپر تفصیل سے سمجھا چکی ہوں۔ اس کا فیصلہ ان لوگوں کے ضمیروں پر یا ضمیروں کی عدم موجودگی یا فوتگی کی صورت میں خدا یا وقت پر چھوڑ دیا جائے تو ہم کافی ساری مغز ماری سے بچ جائیں گے۔ پاکستان میں صحافت اور جمہوریت اسلام کی طرح ہر وقت خطرے میں رہتی ہیں۔ انہی میرا صحافی کو زرداری کے انٹرویو کرنے پر مذمت یا روکا جائے ،ریاست کی بقا کیلئے کچھ موضوعات پر زبان کو حد میں رکھنے کو کہا جائے ، عدالت میں چلنے والے کیس کے ملزموں کو ٹی وی پر بلا بلا کر اپنا موقف بیان کرنے اور رائے عامہ کو اپنی مرضی کے حساب سے موڑنے پر کوئی پیمرا مداخلت کر دے تو صحافت خطرے میں اسی طرح کرپشن اور کرپٹ لیڈروں کے احتساب کی بات آئے تو جمہوریت خطرے میں۔ اداکارہ میرا ، ایک حد سے زیادہ پر عزم خاتون ہیں، اداکاری کا زمانہ جب لد گیا تو پھر خبروں میں رہنے کیلئے کبھی میرا برینڈڈ انگریزی لانچ ہو نے لگی اور کبھی اخلاق سے گری ویڈیوز ریلیز ہو نے لگیں اورکبھی ایک سے زیادہ شوہر نمودار ہو نے لگے۔ مقصد ایک ہی تھا کہ شہرت کو چار چاند لگے رہیں چاہے وہ گہنائے ہو ئے ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ صرف میرا یا اس میر صاحب کی خصلت نہیں ، یہ ہر حد سے بڑھے نرگسیت کا شکار لوگوں کی پرابلم ہو تی ہے کہ گفتگو کا مرکز ان کی ذات ہو نی چاہئے چاہے گفتگو کتنی ہی منفی ہی کیوں نہ ہو۔ سیاست ، اور سیاستدان ایک دوسرے پر گند اچھالتے ہیں ، ہونا تو وہ بھی نہیں چاہئے مگر انکے سٹیک دیکھ کر رعایت دی جا سکتی ہے کہ سیاست کا میدان ہی کچھ اور ہے مگر صحافت میں ایسا ٹپوری پن اور وہ بھی تب جب آزادی صحافت پر نہیں بلکہ صرف اور صرف آپ کے ذاتی مفادات پر ضرب لگی ہو۔قوم کو چاہئے اپنی ذاتی جنگ لڑنے والوں کو ، چاہے وہ سیاستدان ہیں چاہے یہ زرد صحافی یہ تنبیہ کر دے کہ اپنی ذات اور انا کی لڑائی میں ہمارا نام نہ لیا جائے۔۔ ہم نے جب اٹھنا ہو گا تو سب سے پہلے آپ لوگوں کے خلاف ہی اٹھیں گے۔ ابھی ہ میں سکون سے سونے دیا جائے۔ ہمارا نام بار بار استعمال کر کے اور خود کو اپنی اپنی نظروں میں نہ گرا یا جائے۔ عین نوازش ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن