پاکستان میں چونکہ قومی شعور قومی جذبے اور حب الوطنی کی کمی ہے آئین اور قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے احتساب اور انصاف کا نظام انتہائی کمزور ہے اس لئے آئے روز افسوسناک سکینڈلز سامنے آتے رہتے ہیںجن سے پاکستان کا عالمی سطح پر وقار مجروح ہوتا ہے اور پاکستان کے اندر عوام میں مایوسی اور بداعتمادی پھیلتی ہے مگر مفاد پرست حکمران اشرافیہ کو قومی وقار اور مفاد سے کوئی غرض نہیںہوتی۔
مسلم لیگ نون کی مرکزی رہنما محترمہ مریم نواز شریف نے اپنی پارٹی کے سرکردہ لیڈروں کے ہمراہ ایک پر جوش پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی گفتگو پر مبنی ایک ویڈیو پیش کی جس کے مطابق انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کہ جج ارشد ملک پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں سزا سنائے۔ آئین اور قانون کی روشنی میں یہ پریس بریفنگ ریاست اور ریاستی اداروں کے مفاد میں نہیں تھی۔ اس پریس بریفنگ سے عدلیہ کا وقار عوام کی نظروں میں مجروح ہوا کیونکہ جج کی ویڈیو کو عدالت میں پیش کرنے کی بجائے اسے سیاسی مقاصد کے لیے پریس بریفنگ میں پیش کیا گیا تاکہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے اس ویڈیو کے سلسلے میں میں ایک شہری کی پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔ عدلیہ جائزہ لے گی کہ قوانین کی روشنی میں عدلیہ کی توہین اور تضحیک تو نہیںہوئی۔ حکمران اشرافیہ اکثر اوقات اپنے ذاتی گروہی اور سیاسی مفاد کے لئے ریاست اور اس کے اداروں کے مفاد کو نظرانداز کر دیتی ہے۔ جج کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مسلم لیگ نون کے لیڈروں نے میاں نواز شریف کو جیل سے رہا کرنے کا مطالبہ شروع کردیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ ان کو قانون کے مطابق نہیںبلکہ دبائو کے تحت سزا دی گئی۔ مسلم لیگ نون کی جانب سے ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جج ارشد ملک نے پریس ریلیز جاری کرکے اس ویڈیو کی تردید کردی بلکہ مسلم لیگ نون کی قیادت پر یہ الزام بھی لگا دیا کہ مقدمے کی سماعت کے دوران ان پر دباؤ بھی ڈالا گیا اور لالچ بھی دیا گیا۔
جج ارشد ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک تفصیلی حلفیہ بیان داخل کیا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ شریف خاندان نے مختلف اوقات میں ان کو دھمکیاں دیں اور کروڑوں روپے کی رشوت پیش کی مگر وہ ان کے دباؤ میں نہیں آئے۔ انہوں نے آئین اور قانون اور شواہد کے مطابق ایک مقدمے میں میاں نواز شریف کو بری کردیا جبکہ دوسرے میں سزا سنائی۔ اس حلفیہ بیان کے بعد وزارت قانون نے جج ارشد ملک کو کام سے روک دیا ہے یہ مسئلہ اب سپریم کورٹ کے زیر سماعت ہے جس کے فیصلے کا عوام کو انتظار ہے تا کہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔
برطانیہ کے ایک پاپولر اخبار ڈیلی میل میں ایک سنسنی خیز رپورٹ شائع ہوئی ہے‘ اخبار کے سینئر رپورٹر ڈیوڈ روز نے انکشاف کیا ہے کہ میاں شہباز شریف نے برطانیہ کی جانب سے سیلاب زدگان کی مالی امداد لئے دیئے جانے والے پانچ سو ملین پاؤنڈ میں سے لاکھوں پاؤنڈ خرد برد کیے ہیںاور منی لانڈرنگ کے ذریعے ان کو برطانیہ میں اپنے خاندانی اکاؤنٹس میں منتقل کر دیا۔ برطانیہ کے ادارے ڈی ایف آئی ڈی نے اس اخباری رپورٹ کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس نے سیلاب زدگان کے لئے جو مالی امداد کی تھی ان کے ریکارڈ کے مطابق اس میں کوئی خرد برد نہیں ہوئی۔ ڈیلی میل کے نامہ نگار اس تردید اور وضاحت کے باوجود اپنی سٹوری پر قائم ہیں اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ انہوں نے جو واقعات بیان کیے ہیں۔ وہ ریکارڈ اور ٹھوس شواہد کے مطابق درست ہیں۔
میاں شہباز شریف نے اپنے خلاف الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور ڈیلی میل لندن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ میں قانون کی حکمرانی ہے لہٰذا کوئی اخبار یہ جرأت نہیں کرسکتا کہ وہ کسی شخص پر بے بنیاد الزام تراشی کرے۔ ڈیلی میل کی اس رپورٹ کے بعد پاکستان کے وقار اور ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلے میں مکمل تحقیقات کرکے حقائق عوام کے سامنے رکھے۔ حکومت کے ترجمان کے مطابق میاںشہباز شریف کے خلاف یہ سکینڈل قومی انکوائری کمشن کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ریکوڈیک سکینڈل کا شمار پاکستان کے شرمناک ترین سکینڈلز میں ہوتا ہے۔ ہر حکمران ریکوڈیک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہا ہے۔ حکومت بلوچستان نے2011ء میں زمین سے معدنیات نکالنے والی کمپنی ٹیتھان کو ٹھیکہ دیا جس کی شفافیت کے بارے میں سوال اٹھائے گئے سپریم کورٹ نے 2013 میں یہ معاہدہ منسوخ کر دیا۔ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے اس کے عالمی مضمرات کو نظر انداز کر کے مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیا۔ ٹیتھان کمپنی نے ورلڈ بنک کی عالمی مصالحتی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا۔ یہ دعوی کئی سال زیر سماعت رہا چند روز پہلے عالمی مصالحتی ٹربیونل نے حکومت پاکستان کو 6 ارب ڈالر جرمانہ کیا ہے جس سے پورے پاکستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکڑ مبارک ثمرمند بھی اس منصوبے سے منسلک تھے۔ حکومت نے اس کیس کے لیے قومی کمشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ریاست کو اس قدر بھاری نقصان پہنچانے والوں کے ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔ یاد رہے حکومت نے پہلے ہی آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا قرضہ لے رکھا ہے۔ پاکستان کے اربوں روپے کے چرا لیے گئے مگر آج تک میگا کرپشن کے کسی اسکینڈل میں کسی قومی لٹیرے کو عبرتناک سزا نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے کرپشن کی شرح میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا۔
پہلے کرپشن لا کھوں اور کروڑوں میں ہوتی تھی اور اب اربوں اور کھربوں میں ہورہی ہے۔ اگر چین ملائشیاء اور جنوبی کوریا کی طرح کرپشن میں ملوث افراد کو سزائے موت دی جاتی تو کرپشن کے ہوشربا سکینڈلز کبھی منظر پر نہ آتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کرپشن کرتے ہیں ان کے پاس معاشی طاقت کے علاوہ پارلیمانی اور سیاسی قوت بھی ہے لہٰذا وہ سزائے موت کا قانونی پاس نہیں ہونے دیتے۔
سزائے موت کے قیدیوں کو بھی سزا دینے سے گریز کرتے ہیں تاکہ کوئی ان کو قومی دولت لوٹنے کے الزام میں سزائے موت نہ دے سکے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان انسدادِ کرپشن کے ہیرو کے طور پر دنیا بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ کرپشن میں ملوث قومی لٹیروں کے لئے سزائے موت کا قانون بنائیں تا کہ کرپشن کے سونامی کو روکا جا سکے۔ انقلابی اصلاحات اور اقدامات کی وجہ سے ہی ان کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
٭…٭…٭