اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پچھلے 10 ماہ سے جاری’’ اعصاب شکن جنگ‘‘ نے شدت اختیار کر لی ہے حکومتی ترجمان ہر روز اپوزیشن کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں اور الزام تراشی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کو شش کرتے ہیں جب کہ اپوزیشن کے ’’کرتا دھرتا ‘‘ بھی حکومت کو جواب دینے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ہر ہفتہ وفاقی کابینہ کا اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے لیکن اجلاس کارروائی کا بیشتر حصہ اپوزیشن کے بارے میں ہوتا ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے پس منظر میں چلے جاتے ہیں جب کہ ان کی جگہ سیاسی بیانات لے لیتے ہیں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’پریس کانفرنسوں اور ٹویٹس ‘‘ کے پارلیمانی ماحول پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اسی طرح پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے ’’ڈیبیٹنگ کلب‘‘ کی حیثیت اختیار کر لی ہے ایوان زیریں اور ایوان بالا میں اپنی اپنی قیادت کو’’ خوش ‘‘ کرنے سیاسی پوائنٹ سکورننگ کی جاتی ہے جب کہ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے حکومت اور اپوزیشن کے رہنما ٹی وی چینلوں پر ایک دوسرے کے خلاف اٹھ اٹھ کر باتیں کرتے ہیں لیکن پروگرام ختم ہونے کے بعد باہم ’’شیرو شکر‘‘ ہو جاتے ہیں ذرائع کے مطابق پچھلے 10ماہ کے دوران حکومت نے اپوزیشن کے بارے میں ’’چور ڈاکو ‘‘ کا ’’بیانیہ ‘‘ اپنا رکھا اور اپنی کارکردگی بیان کرنے کی بجائے سارا زور اس بات پر لگا رہی ہے کہ تمام مسائل کی جڑ اپوزیشن کی ’’کرپشن‘‘ ہے جب کہ اپوزیشن نے یہ’’ بیانیہ‘‘ اختیار کر لیا ہے کہ موجودہ حکومت نالائق ہے اور عوام کے مسائل کی ذمہ دار ہے ۔ ’’ہارڈ لائنر ‘‘ سار ا’’کھیل تماشا‘‘ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پائی جانے والی محاذ آرائی کسی وقت بھی تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے جو بالآخر جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے ۔