اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کیس میں درخواست گزاروں کے وکلاء نے معاملے پر انکوائری کمشن کی تجاویز دی ہیں جبکہ عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل سے تجاویز طلب کر تے ہوئے سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ جج صاحب کے مس کنڈکٹ کا سوال اہم ہے، ویڈیو درست ہیں یا نہیں اس بات کا تعین ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائی کورٹ میں چلنے والا کیس متاثر ہوگا، اب ذمہ داری ڈالی گئی ہے تو فیصلہ دیں گے۔ اللہ کی مہربانی سے ہمارے کندھے مضبوط ہیں۔ فیصلہ درست ہے یا غلط فیصلہ اعلی عدلیہ کرے گی عدلیہ نے جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے۔ عدالت ڈیمانڈ پر نہیں چلتی۔ احتساب عدالت کے جج کی ملاقاتیں غیرمعمولی ان کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کا کیس چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سر برا ہی میں تین رکنی بینچ نے کی سماعت کے آغاز پر رخواست گزار اشتیاق مرزا کے وکیل منیر صادق نے موقف اپنایا کہ ویڈیو میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جج نے فیصلہ کسی کی ایما پر دیا جس کی جج نے الزامات کی تردید کر دی۔ جج نے کہا ویڈیو کے مختلف حصوں کو جوڑا گیا ہے۔ جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بلیک میلنگ کی تفصیلات بتائیں۔ عدلیہ پر سنگین الزامات عوامی مفاد کا معاملہ ہے، وزیر اعظم نے بھی عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے بھی تحقیقات کی بات کی جبکہ سیاسی جماعتوں اور بار کونسل نے بھی عدلیہ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا لوگوں کے کہنے پر نوٹس لینے سے عدلیہ کی آزادی پر سوال نہیں اٹھیں گے؟۔ آزاد لوگ خود کام کرتے ہیں کسی کے کہنے پر نہیں، سوموٹو عدالت خود لیتی ہے کسی کی ڈیمانڈ پر لیا گیا نوٹس سوموٹو نہیں ہوتا۔ عدالت ڈیمانڈ پر نہیں چلتی اور آپکی درخواست بھی یہی ہے کہ ججز ڈیمانڈ پر نہ چلیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپکی کیا تجویز ہے عدالت کیا کرے۔ وکیل منیر صادق نے کہا عدالت جوڈیشل انکوائری کرائے تو زیادہ بہتر ہے، انکوائری کمشن میں جو چاہے بیان ریکارڈ کرائے اور بہتر ہو گا کوئی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا جج کمشن کی سربراہی کرے، عدلیہ کی آزادی کے لئے متعدد اقدامات کی ضرورت ہے، انکوائری کمشن الزامات اور جواب کی سچائی کا تعین کرے گا، اگر توہین عدالت ہو تو کارروائی ہونی چاہئے، سچ سب کے سامنے آنا چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا انسان کی پیدائش سے ہی سچ کی تلاش جاری ہے، اگر سچ عدالت نے تلاش کیا تو اپیل لانے والے کیا کریں گے، ذمہ دار لوگوں کو عمومی بیانات سے اجتناب کرنا چاہئے، یہ کہنا درست نہیں کہ سب وکیل ، جج ، پولیس اور سیاست دان برے ہیں۔ ان میں سے جو لوگ برے نہیں ہوتے انکی دل آزاری ہوتی ہے، وکیل نے کہا عدالت حکومت کو بھی کمشن بنانے کا کہہ سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا نواز شریف کی اپیل ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے، کمشن بن بھی گیا تو اسکی رائے ثبوت نہیں ہو گی۔ ہائیکورٹ میں اپیل پر کمشن رپورٹ اثر انداز ہو سکتی ہے کیا آپ کو ہائیکورٹ پر اعتماد نہیں؟۔ اگر ہائیکورٹ پر اعتماد ہے تو اسے اپنا کام کرنے دیں۔ درخواست گزار عدالت کو سمجھا دیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں۔ وکیل منیر صادق نے کہا عدالت پانامہ طرز کی جے آئی ٹی بنا سکتی ہے، جے آئی ٹی سے کم از کم سچائی سامنے تو آ گئی تھی، کسی میں جرات نہیں ہونی چاہئے کہ جج کو بلیک میل کرے، جس پر چیف جسٹس نے کہا جے آئی ٹی عدالت نے اپنی معاونت کے لئے بنائی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا بے شک ججز کی ساکھ بہت اہم ہے۔ ہمیں ہدایت دینے کی ضرورت نہیں تحقیقات کیسے ہوں، کوئی شک نہیں اس معاملے میں غیرمعمولی باتیں بھی ہیں۔ سوال یہ ہے تحقیقات کس طرح سے کی جائے۔ منیر صادق کے دلائل مکمل ہونے پر دوسرے درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ سہیل اختر اسلام آباد کے وکیل ہیں جس کے بعد باقاعدہ دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل اکرام چوہدری نے مریم نواز کی پریس کانفرنس اور جج ارشد ملک کے بیانات عدالت میں پڑھ کر سنائے۔ وکیل اکرام چوہدری کا کہنا تھا نواز شریف کے خلاف دبائو کے تحت فیصلے کا الزام عائد کیا گیا مریم نواز نے مزید ثبوتوں کا بھی دعوی کیا۔ جج نے کہا ناصر بٹ سے میری شناسائی ہے جبکہ جج نے کہا دبائو ہوتا تو ایک کیس میں بری نہ کرتا۔ حسین نواز کی جج کے ساتھ مدینہ منورہ میں ملاقات کی فرانزک آڈٹ اور تحقیقات کے تحت تمام فریقین کے جواب لئے جائیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ویڈیو سیکنڈل کا جائزہ لینا ضروری ئے سوال یہ ہے جائزہ کون اور کس طرح لے گا۔ ویڈیو سیکنڈل غیر معمولی واقعہ ہے عدالت کے سامنے سب برابر ہیں کوئی ہائی پروفائل نہیں ویڈیو میں ہائی پروفائل لوگ ہیں تو سب آ گئے ہیں ایسے واقعات سے نظام عدل متاثر ہونے کا کسی نے نہیں کہا جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکیس میں اب تک پہلا سوال عدلیہ کی ساکھ دوسرا سوال فیصلہ درست ہونے یا نہ ہونے کا ہے تیسرا سوال جج کے کنڈکٹ کا ہے جج کے کنڈکٹ پر قانون موجود ہے فیصلہ درست ہے یا غلط فیصلہ اعلی عدلیہ کرے گی لیکن جو دھول ابھی اٹھ رہی ہے اسے چھٹنا ہے عدلیہ نے جذبات نہیں سنجیدگی سے معاملہ دیکھنا ہے وکیل اکرام چوہدری نے کہا توہین عدالت کی کاروائی ضروری ہے توہین عدالت کا مطلب ہوگا جج پر الزام غلط ہے پہلے حقائق کا علم ہونا چاہیے وکیل اکرام چوہدری نے معاملہ سائبر کرائم کے زمرے میں بھی آتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا ملک میں جو انکوائیریاں یا مقدمات ہوتے ہیں کیاوہ سپریم کورٹ کرواتی ہے وکیل نے کہا معاملہ سے عدالتی کی عزت پر سوال اٹھ رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ایک وکیل نے جج صاحب کو کر سی مار دی دوسری جانب ایک وکیل کے طیش دلانے پر جج نے پیپر ویٹ وکیل کو دے مارا کیا ان سارے واقعات سے عدالت کی عز ت کم نہیں ہوتی عدالت کی نظر میں سب مساوی ہیں اکرام چوہدری کے دلائل مکمل ہونے پر تیسرے درخواست گزار طارق اسد نے کہا ویڈیو کے فرانزک تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا جج نے غلط کام کئے جج تو کسی فریق کے وکیل سے بھی نہیں ملتے جج کی کوئی مانیٹرنگ کیوں نہیں کی گئی حکام اور حساس ادارے کہاں تھے جج کی نقل و حرکت پر نظر کیوں نہیں رکھی گئی صرف جوڈیشل کمشن سے ہی مسئلہ حل نہیں ہو گا عدالت اداروں کو بھی عدالتی معاملات میں مداخلت سے روکے۔ لال مسجد کیس میں دو لفافے ججز کو ملے جس پر ججز نے لفافے ملتے ہی بغیر سنے فیصلہ سنا دیا۔عدلیہ پر دوسرے ادارے اثر انداز ہو رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ایک طرف کہتے ہیں اداروں نے مداخلت نہیں کی دوسری طرف کہتے ہیں ادارے مداخلت کرتے ہیں وکیل نے کہا میرا مقصد ہے کہ ادارے اپنا کام نہیں کرے جج کے عمرے پر جانے کا اصل مقصد حسین نواز سے ملاقات تھا ججز کو عوامی ملاقاتوں سے روکنا چائیے اعلیٰ عدلیہ کے ججز اب سوشل نہیں رہے ماتحت عدلیہ کے ججز کو بھی سوشل ملاقاتوں سے روکا جائے سار کچھ میڈیا پر آر ہا ہے جو کہ کم از کم میں دیکھ نہیں سکتا میری بیگم ٹی وی دیکھتی ہے تو میں کمرہ چھوڑ جاتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کمرہ چھوڑنے کی بجائے ٹی وی بند کر دیا کریں طارق اسد نے کہا یہ کیس ایسا ہے جس سے لوگوں کو سبق مل سکتا ئے چیف جسٹس نے کہا کمشن بنانے کا اختیار تو حکومت کو بھی ئے وکیل نے موقف اپنایا کہ حکومتی کمشن جانب دار کو گا سپریم کورٹ کے حاضر یا ریٹائرڈ جج پر مشتمل کمشن ہونا چائیے تاہم ریٹائرڈ جج بھی اچھی ساکھ کا ہونا چائیے چیف جسٹس نے کہا ممکن یے ارشد ملک کا تبادلہ پنجاب کر دیا جائے لاہور ہائیکورٹ کے ماتحت جانے پر ہی ارشد ملک کیخلاف کاروائی ہو سکتی ہے لیکن وویڈیو درست ہے یا نہیں اس کا تعین ہونا چائیے آڈیو اور ویڈیو کے قابل قبول شواہد ہونے پر عدالتی فیصلے موجود ہیں پہلے تعین ہونا ئے ویڈیوز قابل قبول ہے یا نہیں ویڈیو تصدیق کے بعد ہی بطور شواہد لائی جا سکتی ہے ویڈیو کا فرانزک آڈٹ بھی کسی ادارے سے ہو گا کسی کی خفیہ ریکارڈنگ کرنے کا بھی الگ قانون ہے چیف جسٹس نے مزید کہا سارا ملبہ اٹھا کر سپریم کورٹ پر ڈال دیا گیا ہے سب کچھ سپریم کورٹ کرے تو بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں اب سپریم کورٹ نے ہاتھ روک لیا ہے تو سب درخواستیں لے کر سپریم کورٹ میں آگئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اعتراض کرنے والے ہی کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ خود کچھ کرے اب درخواستیں آ گئی ہیں تو فیصلہ بھی ہو گا ، لیکن دیکھنا ہے کہ عدالت نے کس حد تک جانا ہے ہائیکورٹ میں بھی کیس زیر سماعت ہے اب کیس سماعت کیلئے مقرر ہوا ہے تو کچھ نہ کچھ فیصلہ تو دیں گے آپ نے ذمہ داری عدالت کے کاندھوں پر ڈال دی ہے تو اللہ کی مہربانی سے عدالت کے کندھے بڑے مضبوط ہیں عدالت نے کیس کے اختتام پر استفسار کیا اٹارنی جنرل کہاں ہیں تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو بتا یا کہ کلبھوشن یادیو کیس کے فیصلے کے باعث اٹارنی جنرل ملک سے باہر ہیں رواں ہفتے کے اختتام پر آجائیں گے چیف جسٹس نے کہا کیس میں اٹاری جنرل کی معاونت بھی چاہتے ہیں تا کہ ا نکا موقف سامنے آجائے عدالت نے آئیندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہوے سماعت23جولائی تک ملتوی کردی یاد رہے کیس سماعت کے دوران محسن رانجھا ، جاوید ہاشمی ، طارق فضل چوہدری ، رفیق رجوانہ اور محمود اچکزئی بھی موجود تھے ۔
جج کی ملاقاتیں غیر معمولی‘ ویڈیو درست یا نہیں تعین ہونا چاہئے: چیف جسٹس
Jul 17, 2019