اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا کہ کسی سرکاری ادارے میں وزراء کی سفارش برداشت نہیں کریں گے۔ کے پی کے ورکرز ویلفئیر بورڈ کے تمام افسروں اور ملازمین کو فارغ کر دینگے، نیا بورڈ تشکیل دیا جائے گا اور تمام بھرتیاں بھی دوبارہ ہونگی۔ چیف جسٹس گلزار احمدکی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کسی سرکاری ادارے میں وزراء کے سفارشی برداشت نہیں کرینگے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ورکرز ویلفیئر بورڈ بھرتیوں میں وزراء کا کیا کام ہے؟۔ مزدوروں کا پیسہ سیاسی رشوت کے طور پر پھینکا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ورکرز ویلفیر بورڈ کے پی کے میں کرپشن اوراقربا پروری عروج پر ہے، ورکرز ویلفئیر بورڈ گھوسٹ ملازمین سے بھرا پڑا ہے، تمام بھرتیاں سیاسی ہیں یا پھر افسروں نے اپنے رشتہ دار بھرتی کیے، لگتا ہے سارا کے پی کے صرف سرکاری ملازمت ہی کرتا ہے، ورکرز ویلفیئر بورڈ افسروں کو ذرا شرم نہیں آتی، ورکرز ویلفیئر بورڈ کرپٹ ترین ادارہ ہے، کوئی ملازم بھی قانون کے مطابق بھرتی نہیں کیاگیا، ورکرز ویلفیئر بورڈ تحلیل کرکے تمام افسروں کو فارغ کردینگے، بڑی بڑی تنخواہیں لینے والوں نے ادارے کی کوئی بہتری نہیں کی، ورکرز ویلفیئر بورڈ میں مزدوروں کا پیسہ ہے اس لیے حکومت دلچسپی نہیں لیتی، تحریری فیصلے میں یہ سب کچھ لکھیں گے، کمرہ عدالت میں موجود افسر اپنے نام عہدے اور قابلیت لکھ کر دیں۔ ورکرز ویلفیئر افسروں کی شکایت کرنے والے کے اپنے کوائف بھی عدالت نے لینے کی ہدایات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا افسروں کیساتھ ساتھ آپکو بھی فارغ کرینگے، یہ کیسے ممکن افسر نے کہا سارے غلط ہوں اور آپکی تعیناتی ٹھیک ہوئی ہو، عدالت نے 294 اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کی برطرفی کیخلاف اپیلیں خارج کر دیں۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ حکومت کا سٹیل مل سے متعلق بنایا گیا منصوبہ صرف تباہی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے سٹیل مل پر جامع رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے پاکستان سٹیل ملز انتظامیہ پر اظہار برہمی کیا۔ انہوں نے کہا سٹیل ملز سے متعلق بنایا گیا منصوبہ صرف تباہی ہے، زیادہ ہوشیاری سٹیل ملز انتظامیہ کے گلے پڑ جائے گی، پاکستان سٹیل ملز تمام ملازمین کو نہیں نکال سکتی، سٹیل مل انتظامیہ اپنے فیصلوں پر کھڑی کیوں نہیں ہوتی عدالت سہارا نہیں دے سکتی۔ حکومت کی سٹیل مل پر کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا حکومت کا یہ منصوبہ ہے کہ سٹیل مل کے 95 فی صد ملازمین کو نکال کر نئے کنٹریکٹ ملازمین بھرتی کئے جائیں۔ اس وقت بھی سٹیل مل سے متعلق ہائیکورٹ میں 320 اور سپریم کورٹ میں 29 مقدمات ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکابینہ نے سٹیل ملز کے تمام ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ بھی نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا ملازمین کو اس طرح نکالا تو پانچ ہزار مقدمات بن جائیں گے۔ ایسا ہوا تو سٹیبل مل چت ہوکر رہ جائے گی۔ سٹیل مل کے وکیل نے کہا ملازمین کی برطرفی کیلئے 40 ارب درکار ہونگے، سٹیل ملز کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا ایسا نہ ہو سٹیل مل انتظامیہ کو برطرف کئے گئے ملازم ہی دوبارہ رکھنے پڑیں۔ وکیل سٹیل مل نے کہا انڈسٹریل ریلیشن قانون کی شق گیارہ آڑے آئے گی۔ چیف جسٹس نے کہا ایک شق نہیں پورا قانون آپ کے آڑے گا۔