فوجی قیادت کے ساتھ بھاشا ڈیم کی تعمیر کا افتتاح‘ عمران خان کا ترقی کیلئے مشکل فیصلے کرنے کا عزم
وزیراعظم عمران خان نے دیامر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کا باقاعدہ افتتاح کر دیا۔ منصوبہ 2028-29ء میں مکمل ہوگا۔ واپڈا ترجمان کے مطابق پراجیکٹ پر عملدرآمد کیلئے حکومت کی جانب سے بروقت فیصلہ سازی کی گئی۔ ڈیم میں مجموعی طور پر 81لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوگا جس کی بدولت 12لاکھ 30ہزار ایکڑ اضافی زمین سیراب ہوگی۔ منصوبہ کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 4ہزار 500میگاواٹ ہے ۔اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشکل فیصلے کرنے والی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔ چین کی ترقی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے ماضی میں قلیل مدتی فیصلے کئے 90 کی دہائی میں تیل سے بجلی بنانے کے غلط فیصلے کئے گئے، دریائوں سے بجلی بنانے کی بجائے تیل پر بجلی بنانے کو ترجیح دی گئی۔ قبل ازیں وزیراعظم عمران خان کو دیامر بھاشا ڈیم کے تعمیراتی کام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ بھی موجودتھے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی عاصم سلیم باجوہ نے ایک بیان میں کہا کہ منصوبے سے سٹیل‘ سیمنٹ‘ تعمیراتی شعبوں کو فروغ حاصل ہوگا۔ منصوبے سے 16 ہزار نوکریاں پیدا ہونگی۔
دیامیر بھاشا ڈیم پانی اور بجلی کی پیداوار کے حوالے سے بہترین منصوبوں میں سے ہے۔ اسکی تعمیر کا 1980ء سے جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔ اسکی تعمیر کے حوالے سے عملی سرگرمیاں 1998ء میں دیکھنے میں آئیں جب وزیراعظم میاں نوازشریف نے اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اسکے بعد افتتاح کرنے اور اپنے ناموں کی تختیاں لگانے کی ایک ریس نظر آئی۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے 2006ء اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2011ء میں اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ کرافتتاح کیا مگر دوسری اینٹ نہ رکھی جاسکی۔ وزیراعظم میاں نوازشریف دسمبر 2016ء میں اسکی تعمیر کیلئے متحرک نظر آئے۔ انہوں نے پانی و بجلی کے سیکرٹری کو طلب کرکے بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے فنانسنگ پلان کی تیاری کا حکم دیا تاکہ اسکی تعمیر 2017ء کے آخر تک شروع کردی جائے مگر نتیجہ پھر ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔ ڈیم کی تعمیر شروع نہ ہوسکی۔ اب ایک اور افتتاح بڑے جوش و خروش اور عزم و ارادے سے ہوا ہے‘ خدا نہ کرے کہ ماضی کی طرح یہ بھی صرف اور صرف افتتاح برائے افتتاح ہی قرار پائے۔ اس ڈیم کی تعمیر پر جو بھی اخراجات ہونگے‘ اس کا اہتمام تو حکومت کو کرنا ہے تاہم ابتدائی طور پر آغاز کیلئے سپریم کورٹ کے پاس جسٹس میاں ثاقب نثار کی فنڈنگ مہم میں جمع کئے گئے 12‘ ارب روپے موجود ہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے‘ معیشت میں زراعت کے ساتھ صنعتوں کی اہمیت و افادیت بھی مسلمہ ہے۔ پانی کے بغیر زرعی ترقی کا تصور ہی محال ہے اور کاروبار کیلئے انرجی کی ناگزیریت سے انکار ممکن نہیں۔ صنعتی زرعی کاروباری اور گھریلو ضرورت کیلئے بجلی گیس و پٹرول کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ بجلی کی پیداوار کے مختلف ذرائع میں پن بجلی سب سے سستی پڑتی ہے۔ آج بجلی اگر مہنگی ہے تو اسکی ایک وجہ اس کیلئے گیس و پٹرول کا استعمال ہے۔ پانی سے پیدا ہونیوالی ہائیڈل بجلی پر زیادہ سے زیادہ لاگت ایک ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ آتی ہے۔ تربیلا اور منگلا ڈیم سے سستی ترین بجلی پیدا ہورہی ہے۔ سلٹ جمنے کے باعث ان دونوں ڈیموں کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے اس لئے بھی مزید ڈیموں کی ضرورت ہے۔ بھاشا ڈیم کسی حد تک پاکستان کی پانی اور بجلی کی ضروریات پوری کرسکے گا۔
ہمیں مکار دشمن بھارت کی آبی دہشت گردی کا بھی سامنا ہے اسکے توڑ کیلئے بھی ڈیمز کی تعمیر ضروری ہے۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار اس لئے بھی دیا تھا کہ کشمیر سے آنیوالا پانی ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو پاکستان کی پانی کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے مگر یہ مسئلہ کب حل ہوگا‘ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہمیں تو پانی و بجلی کی فوری ضرورت ہے۔ اس کیلئے ممکنہ حد تک جتنے بھی ڈیم اور ذخائر بن سکتے ہیں‘ ضرور بنانے چاہئیں۔ پاکستان میں دریائوں کی کمی نہیں‘ نہروں کی بہتات‘ چھوٹے بڑے ہزاروں بجلی کی پیداوار کے منصوبے لگ سکتے ہیں۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی اپنی انتہائی اہمیت ہے مگر کالاباغ ڈیم کی ضرورت اور اہمیت دوچند ہے۔ اس منصوبے سے بھی 4 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی اور پانی ضرورت کے مطابق ذخیرہ ہوسکے گا۔ اسکے علاوہ کالاباغ ڈیم ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں اور خشک سالی سے محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔
کالاباغ ڈیم کو دشمن اور اسکے ایماء پر اسکے پروردہ عناصر نے متنازعہ بنادیا۔ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف کی قیادت مکمل طور پر کالاباغ ڈیم کی حامی ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کا بڑا حصہ بھی مخالفت نہیں کرتا مگر محض کالاباغ ڈیم کے مخالفین کی زبان درازی سے خائف ہو کر ڈیم کے حامی چپ سادھ لیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے بھاشا ڈیم کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ مشکل فیصلے کرنیوالی قومیں ہی ترقی کرتی ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ یقیناً مشکل ہے‘ وہ عمران خان جیسا مشکل فیصلے کرنے والا وزیراعظم ہی ممکن بناسکتا ہے۔ مشرف نے بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے دھاڑتے ہوئے شیر بننے کی کوشش کی تھی‘ وہ 9 سال ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے لیکن کالاباغ ڈیم پر کسی قسم کی پیشرفت نہ کرسکے۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے اقدامات اور ریمارکس سے بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی امید پیدا ہوئی تھی تاہم وہ ایک کام بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈنگ کا تو کر گئے۔ عمران خان نے بھاشا ڈیم کا افتتاح کردیا ہے‘ اب اسکی بلاتاخیر تعمیر کا آغاز ہو جانا چاہیے۔ تعمیر کے دوران ملک دشمن عناصر بالخصوص بھارت کی سازشوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ پاکستان کو کبھی پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتا۔