جمعۃ المبارک‘ 25؍ذیقعد 1441 ھ‘ 17؍جولائی 2020ء

ٹرمپ ، روزویلٹ ہوٹل خریدنا چاہتے ہیں: قائمہ کمیٹی کا انکشاف
یہ تو معلوم تھاکہ صدر ٹرمپ اور ان کے داماد بڑے کاروباری ہیں، اس لئے اس انکشاف میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں۔ واقعی ہو سکتا ہے کہ وہ پی آئی اے کا یہ ہوٹل خریدنا چاہتے ہوں۔ ویسے بھی یہ ایک کمائو پوت تھا جو اچانک گزشتہ سال سے یا سالوں سے خسارے میں جانے لگا تھا۔ ایسا کیوں ہو رہا تھا، اس کی تحقیقات اب قائمہ کمیٹی والے کرائیں تاکہ معلوم ہو کہ روزویلٹ کے اصل دشمن کون ہیں جو اس کی فروخت کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ اڑتی اڑتی خبریں یہ بھی ہیں کہ ایک اہم حکومتی شخصیت بھی اس پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔ اب ٹرمپ کو بھی خریداروں کی صف میں شامل کر دیا گیا ہے تاکہ دوسری طرف توجہ نہ جائے۔ روزویلٹ ہوٹل ایک قیمتی قومی اثاثہ ہے، اسے یوں کوڑیوں کے مول فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک ہمارے ہاں اندھے ریوڑیاں بانٹتے ہیں مگر باشعور لوگ اس بندربانٹ کی راہ روک سکتے ہیں۔ یہ المیہ ہو گا کہ ہم اپنے قومی اثاثے یوں فروخت کرتے پھریں، اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہوٹل فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے جو اس وقت اس شعر کے مصداق مجسمہ حیرت بنا سب کو دیکھ رہا ہے کہ…؎
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
٭...........٭...........٭
لاہور میں صفائی کا نیا نظام متعارف کرایا جائے گا
جی ہاں! اس مبارک نظام میں ہر گھر سے اس کے حجم کے مطابق کوڑا اٹھانے کی فیس وصول کی جائے گی۔ صفائی کا نیا کنٹریک نہایت بااثر کمپنی کو دیا گیا ہے جو اب 7سال لاہورکے گھروں سے کوڑا اور لاہوریوں سے ماہانہ معاوضہ وصول کرے گی۔ معلوم نہیں جو لوگ اپناکچرا گلیوںمیں پھینکتے ہیں یا شرافت سے ازخودکوڑے دان میں ڈالتے ہیں، ان کے بارے میں یہ نظام کیا کہتا ہے۔ لاہورمیں صفائی کا نظام جو بھی ہو‘ اس کا مقصد صرف عوام سے پیسے بٹورنا نہیں ہونا چاہئے۔ صفائی ہوتی نظر آنی چاہئے جیسے پچھلی حکومت کے دور میں ہوتا تھا جو صفائی کے لحاظ سے لاہور کا سنہری دور تھا۔ لوگ بھی تب ہی ہنسی خوشی ٹیکس ادا کرتے ہیں جب انہیں کام بھی ہوتا نظر آئے۔ اگر شہروں کی گلیوں میں سڑکوں پر کوڑا پھینکنے پر کڑی سزا اور جرمانے کا بھی فیصلہ کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کرایا تو شہر صاف ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں بھی لوگوں کا شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ صفائی کا نظام جو بھی ہو جب تک لوگوں میں خود صفائی کا شعور پیدا نہیں ہو گا۔ شہروںمیں گندگی یونہی پروان چڑھتی رہے گی۔ ہم صفائی نصف ایمان پر یقین تو رکھتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے کیونکہ ہمیں گندگی سے محبت ہے۔
٭...........٭...........٭
کشمیری شہداء کو خراج عقیدت، یوٹیوب نے حدیقہ کیانی اور ترک گلوکاروں کا نغمہ ہٹا دیا
یہ تو بڑی غلط بات ہے، یوں تو یوٹیوب پر دنیا بھر کی گندگی اور جھوٹی سچی چیزیں دیکھنے کوملتی ہیں۔ ہر طرح کا عیب نظر آتا ہے مگر یہ ایک بے ضرر سا نغمہ کیوں انہیں تکلیف دینے لگا۔ کیا یوٹیوب پر ایسی درجنوں ہندوستانی فلمیں دستیاب نہیں جن میں پاکستان کے خلاف اسلام کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو پھر انہیں بھی یوٹیوب سے ایسے ہی ہٹا دیا جانا چاہئے جیسے یوٹیوب سے پاکستان کی مایہ ناز گلوکارہ حدیقہ کیانی اور ترک گلوکاروں کے کشمیری شہداء اور کشمیریوں سے ہمدردی والے نغمات ہٹائے گئے ہیں۔ یہ تعصب کیوں؟ یہ دوغلی پالیسی کیوں؟ یوٹیوب استعمال کرنے والے ہر پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ یوٹیوب پر اپنے ریمارکس میں اس حرکت پر غم و غصے کا اظہار کرے اور احتجاج ریکارڈ کرائے کہ ایک بے ضرر سا نغمہ کونسی آفت ڈھا رہا تھا۔ کیا کشمیر میں بھارتی مظالم دنیا کے سامنے نہیں ۔ کیا ظلم کے خلاف بولنا جرم ہے یا صرف مسلمانوں کے خلاف جرائم اور ظلم پر کچھ کہنا، لکھنا اور بولنا ممنوع ہے۔ یوٹیوب کی اس حرکت سے لاکھوں صارفین کو دکھ ہوا ہے۔ یہ اظہار رائے پر پابندی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہم ظالم کا ہاتھ نہیں روک سکتے تو کم از کم اس کے خلاف بول تو سکتے ہیں مگر شایداہل مغرب بھول رہے ہیں؟
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستیں کا
سوشل میڈیا سے مواد ہٹانے سے بھارت کا ظلم چھپ نہیں سکتا۔ ایسی باتوںسے کسی میڈیا کی بددیانتی البتہ ضرور ظاہر ہوگئی ہے۔
٭...........٭...........٭
کراچی میں بجلی کے بعد آٹے اور دودھ کا بحران، شہری پریشان
لگتا ہے ہر سفید چیز کو موجودہ حکومت سے نجانے کیوں دشمنی سی ہو گئی ہے۔ آٹا، چینی اور دودھ اس دشمنی میں سرفہرست ہے‘ صرف کراچی ہی نہیں ملک کے دوسرے شہروںمیں بھی ان کی قیمتیں آئے روز رسی تڑاکر یوں بھاگنے لگتی ہیں کہ لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں مگر آج کل کراچی والوں کے برے دن کچھ زیادہ ہی لمبے ہو رہے ہیں۔ بجلی وہاں نہیں آتی، پانی کا ویسے ہی بجلی کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ بھی بجلی کے جاتے ہی رخصت ہو جاتا ہے۔ آٹے اور چینی کی گرانی نے ان کے ہوش اڑا رکھے ہیں۔ یہ مصائب کیاکم تھے کہ اب دودھ والے بھی کڑاہی کڑچھے سنبھال کر عوام اورحکومت کے خلاف مورچہ لگا کر ڈٹ گئے ہیں۔ دودھ 120روپے لیٹر فروخت ہو رہاہے، اسے کم کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوچکی ہے۔ اگر بات قیمت کی ہے تو اس پر صبر کیا جاسکتا ہے مگر دودھ بھی تو خالص ملے۔ یہ کیا کہ بال صفا پائونڈر اور کیمیکل سے بنایا دودھ 120روپے لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے یعنی لوگ مجبوراً زہر بھی اپنی جیب سے رقم ادا کرکے خرید رہے ہیں۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ دودھ کے نام پر زہر فروخت کرنے والوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹے۔ کیمیکل والے دودھ کی فروخت ناممکن بنائے۔ یہ کام صرف کراچی میں نہیں پورے ملک میں ہونا چاہئے تاکہ عوام کو مرنے سے‘ بیماریوں سے بچایا جاسکے اور دودھ مافیا کو لگام ڈالی جاسکے۔
٭............٭............٭

ای پیپر دی نیشن