ایران نے چاہ بہار بندرگاہ والے مشترکہ منصوبے میں ہمارے دشمن بھارت کو آنکھیں دکھائیں اور اسے ریلوے ٹریک کی تعمیر سے نکال باہر کیا ہے تو ہمیں قلبی اطمینان ہوا ہے۔ ایران نے بھارت کی نیندیں اڑانے اور ہمارے قلبی اطمینان کا ایک اور اہتمام ہمارے جگری یار چین کے ساتھ 25 برس کیلئے سٹرٹیجک پارٹنرشپ کا معاہدہ کرکے بھی کیا ہے۔ اصولی طور پر تو ہمیں اس صورتحال پر بہت زیادہ مطمئن ہونا چاہیے کہ ایران نے بھارت اور امریکہ دونوں کو بیک وقت آنکھیں دکھا کر اس خطے میں پاک چین ایران کے اتحاد کی شکل میں ایک مضبوط بلاک کی بنیاد رکھ دی ہے جو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا ’’مکّو‘‘ ٹھپ سکتا ہے تو امریکہ کا دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کا زعم بھی توڑ سکتا ہے۔ مگر اے بھلے لوگو! کیا ہم دوسروں کی معرکہ آرائیوں پر ہی اپنی سرخوشی کا اہتمام کرتے رہیں گے یا ہمیں خود بھی انگڑائی لینے کی ضرورت ہے؟۔ بھارت نے ایران اور افغانستان دونوں کو چاہ بہار پورٹ کی تعمیر کا چکمہ پاکستان کے ساتھ دشمنی نبھاتے ہوئے بغضِ معاویہ میں دیا تھا‘ مقصد پاکستان اور چین کے مشترکہ راہداری کے منصوبے (سی پیک) کو ناکام بنانا تھا۔ اس چکمے میں افغان صدر اشرف غنی نے تو پاکستان کی طرف پلٹا کھاتے کھاتے مودی کی گود میں جا بیٹھنے والا بے شرمی کا ’’اعزاز‘‘ بہت سرعت کے ساتھ حاصل کرلیا اور پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی بھارتی سازشوں میں برابر کا شریک ہوگیا جبکہ بھارت نے ایران کی مجوزہ چاہ بہار پورٹ سے بھی بلوچستان میں داخلے کی راہداری نکال لی جہاں سے اس نے اپنے جاسوس دہشت گرد کلبھوشن یادیو کے ذریعے اپنا دہشت گردی کا نیٹ ورک پاکستان میں گھسیڑ دیا۔
چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں ایران کو تعاون کی پیشکش کرنے اور پھر ایران کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کرنے کا یہی اصل بھارتی مقصد تھا جو اس نے چاہ بہار پورٹ کی تعمیر سے پہلے ہی پورا کرلیا اس لئے اسے چاہ بہار پورٹ کی تعمیر کیلئے اپنے حصے کا کام مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہ رہی۔ پھر اسے اپنا کام التواء میں ڈالنے کیلئے اس امریکی دھمکی کا سہارا بھی مل گیا کہ اس نے چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں ایران کے ساتھ تعاون کیا تو اسے بھی ایران پر عائد کردہ عالمی اقتصادی پابندیوں کا اپنے لئے سامنا کرنا پڑیگا۔ ایران نے ایک خودمختار قوم ہونے کے ناطے صرف بھارت کے تعاون کو ہی ٹھوکر نہیں ماری بلکہ چین کے ساتھ 25 سالہ تعاون کا معاہدہ کرکے امریکہ کی عائد کرائی گئی عالمی اقتصادی پابندیوں کا بھی پھُلکا اڑا دیا ہے۔ جناب۔یہی وہ خودداری ہے جس کی مسلم دنیا کو طاغوتی طاقتوں کے مقابل اتحاد امت کیلئے ضرورت ہے مگر ہم جو اتحاد امت کیلئے قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں‘ انہی طاغوتی الحادی قوتوں کے آگے بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں اور اپنے ملکی و قومی مفادات کی بھی پاسبانی نہیں کر پارہے۔
ایران کے ساتھ ہم نے بھی تو دس سال قبل گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا تھا جس میں ہم نے بھارت کی شمولیت بھی قبول کرلی مگر بھارتی بدنیتی اس منصوبے کو سبوتاژ کرتی نظر آئی تو ایران نے اسے معاہدے سے باہر نکالنے میں ذرہ بھر دیر نہ لگائی چنانچہ اپنے دشمن کے مفادات پر زد پڑنے پر ہم آج ہی کی طرح اس وقت بھی اپنے تئیں خوش اور مطمئن ہو گئے مگر پھر ہم نے بھی گیس پائپ لائن معاہدے پر ایران کے ساتھ بھارت والا ہی سلوک کیا۔ ایران نے اپنے حصے کی ساری پائپ لائن بچھالی مگر ہم نے اپنے حصے کی پائپ لائن بچھانے کیلئے ایک قدم بھی نہ اٹھایا حالانکہ ایران سے گیس کا بذریعہ پائپ لائن حصول ہمارے توانائی کے گھمبیر ہوتے بحران کے باعث ہماری اپنی ضرورت تھا۔ ہم نے اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے قطر سے ایل این جی کے بذریعہ شپنگ پورٹ حصول کا مہنگا معاہدہ کرلیا مگر ایران سے سستی گیس کے حصول کے منصوبے میں اس لئے لیت و لعل سے کام لیتے رہے کہ امریکہ نے ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث اسکے ساتھ تعاون کے معاملہ میں ہمارے ہاتھ پائوں بھی باندھ دیئے تھے۔ بھارت نے تو یقیناً اپنی بدنیتی کی بنیاد پر امریکی دھمکی کو جواز بنا کر چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں ایران کے ساتھ تعاون کیلئے لیت و لعل سے کام لیا ہوگا مگر ہم نے تو گیس پائپ لائن کے منصوبے میں کوئی پیش رفت نہ کرنے کیلئے امریکی احکام کی فدویانہ تعمیل کی۔ ایسی فدویانہ تعمیل ہمیں غیرمسلم عبادت گاہوں کی مسلمانوں کے پیسے سے انہی کے ہاتھوں تعمیر کے معاملہ میں واضح احکام خداوندی اور تمام آئمہ کرام کے متفق الیہ ہونے کے باوجود اپنے ملک میں سرکاری خرچ پر گوردوارے اور مندر کی تعمیر کیلئے بھی نظر آتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم مسلم دشمن الحادی قوتوں کو خوش کرنے کیلئے کرتارپور راہداری گزشتہ سال 9نومبر کو یوم اقبال کے موقع پر کھولتے ہیں اور بھارت کو افغانستان کے ساتھ تجارت کی سہولت فراہم کرنے کیلئے واہگہ بارڈر کھولنے کا اعلان اس وقت کرتے ہیں جب ہماری شہ رگ کشمیر کے باسی بھارتی مظالم کیخلاف یوم شہدائے کشمیر مناتے ہوئے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے کررہے ہوتے ہیں۔ ہمارے کردار و عمل کے باعث آج کا عجیب و غریب نقشہ بن گیا ہے کہ سیکولر تشخص رکھنے والا بھارت الحادی قوتوں کے ایجنڈے کے تحت ہندو ریاست میں تبدیل ہورہا ہے اور اسی ایجنڈے کا دامن تھام کر ہم پاکستان کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالتے ڈھالتے سیکولر ریاست بنانے پر تلے بیٹھے نظر آرہے ہیں۔
الحادی قوتوں کے مقابل کاش اتحاد امت کی ایسی فضا بن جائے کہ ہم اپنی معیشت و معاشرت کی ترقی کیلئے کسی کے مرہون منت ہی نہ رہیں۔ خدا نے مسلم ریاستوں کی دھرتیوں میں تیل‘ گیس‘ پانی اور سونے تانبے کی شکل میں قیمتی دھاتوں کے اتنے بڑے خزانے ودیعت کر رکھے ہیں کہ مسلم ممالک باہمی تعاون سے انہیں بروئے کار لائیں تو ترقی و خوشحالی کی وہ منزل پالیں جس کا ترقی یافتہ مغربی ممالک بھی شاید تصور نہ کر سکیں۔ پھر مسلم دنیا کسی سے قرضوں کی بھیک مانگے گی نہ ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کیخلاف نام نہاد سپرپاور امریکہ کے ایماء پر لگوائی جانیوالی عالمی اقتصادی پابندیوں کی کوئی وقعت رہے گی۔ ایران نے الحادی قوتوں کو آنکھیں دکھا کر اتحادامت کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ ہم کب انگڑائی لیتے ہیں اور دوسری مسلم دنیا کب بیدار ہوتی ہے‘ یہ آج کا بڑا سوال ہے۔ بے شک ہمارے کردار و گفتار کی یہی آزمائش ہے۔