’’امیت شاہ سے سوال‘‘…!!!

Jul 17, 2020

مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اب پوری دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہے۔ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کرنے والے کشمیری بہن بھائیوں کو سرچ آپریشن کے نام پر سفاکانہ انداز میں شہید کرنے کے بعد، زمانہ جاہلیت کی قبیح رسم ’’مثلہ‘‘ کی مانند لاشوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔
انسانی اعضاء کاٹ کر ’’مُوذی سرکار‘‘ اپنی آتشِ انتقام کو سرد کر رہی ہے۔ بھارتی سُورما کشمیری بہنوں کی عصمت دردی اتنے بیہمانہ انداز میں کرتے ہیں کہ لکھتے ہوئے بھی گھِن آرہی ہے۔ مگر ابتلاء کی اس نازک گھڑی میں حقائق منظرِ عام پر لانا ضروری ہیں۔ قارئین حالیہ کشمیریوں کی نسل کشی کی نئی لہر اور بربریت کا سہرا امیت شاہ کے سر ہے۔
مودی ٹولے نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد انڈین فورسز کے زیر تسلط جب خطے میں کرفیو نافذ کیا تو بھارتی انتظامیہ کی طرف سے تقریباً 4000 کشمیریوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان میں جموں کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی، فاروق عبداﷲ اور عمر عبداﷲ سمیت کئی حریت رہنما جو آزادی کی تحریک کے روحِ رواں ہیں، شامل تھے۔ گرفتار کرنے کے بعد نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر شکوک و شبہات سے لبریز سوالات اٹھنے پر 15اکتوبر 2019ء کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے انڈین ایکسپریس میں دئیے گئے انٹرویو میں یہ راز فشاں کیا کہ ’’ان کشمیریوں کو پبلک سیفٹی کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔ 4000ہزار میں سے 1000 ابھی جیل میں ہی ہیں۔ ان میں سے 800پتھر باز ہیں۔ وادی میں امن و شانتی ہے۔ آرٹیکل 370 کی وجہ سے ہی پچھلے کچھ سالوں میں 40,000 لوگوں کی موت ہوئی‘‘۔
مگر جون کے اوائل میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوامِ متحدہ سمیت دیگر اداروں کو تہلکہ خیز رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی میں زیرِ زمین سیل پوائنٹس قائم کر رکھے ہیں جن میں کشمیریوں کی قید اور پھر تشدد کرنے کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔ اگر بھارتی فوج کی اس دہشت گردی کو نہ روکا گیا تو مسلمان بڑی تعداد میں قتل کر دئیے جائیں گے۔
اب میرا سوال امیت شاہ سے ہے کہ 370 کے خاتمے کے بعد اب مقبوضہ کشمیر میں ریاستی چنگیزیت کیوں قائم ہے؟ امن و امان کے ماحول میں کیسا کرفیو؟ آتنگ واد آپریشن کے نام پر مجاہدین کی ٹارگٹ کلنگ کیوں کی جا رہی ہے۔ سیفٹی کے نام پر جن کو گرفتار کیا گیا ان کو کب رہا کیا اور اب وہ کدھر ہیں، ان کے نام کیا ہیں اور جو جیل میں ابھی بھی قید ہیں ان کا جرم کیا ہے۔ ان سب کی تفصیلات کو ساری دنیا کے سامنے رکھا جائے۔ مرکزی حکومت نے تو 5اگست کو ریاست کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے ساتھ ہی اسے دو حصوں میں بانٹنے کا اعلان کیا تھا نیز لوگوں کے آنے جانے پر پابندی اور مواصلاتی ذرائع کو پوری طرح سے بند کر دیا تھا۔ امیت شاہ جی! ایسا کون سا چور راستہ و طلسمی دروازہ ہے جہاں سے صرف اور صرف پاکستان کی طرف سے تو ٹرینڈ آتنکی آسکتے ہیں مگر نہتے کشمیری کبھی سہواً پاکستان کو نہیں جاسکتے!!! بلا شبہ کشمیریوں کو پاکستان کا اٹوٹ انگ ہونے کی پاداش میں صفحہء ہستی سے مٹانے کی سازش ہو رہی ہے۔
8اگست 2019 کو واشنگٹن پوسٹ کے اداریے میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو باور کروایا گیا ہے کہ وہ خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ اداریے میں یہ بھی کہا گیا کہ سری نگر کی گلیوں میں اب لوگوں کا ہجوم نہیں بلکہ بھارت کی سیکیورٹی فورسز کے اہلکار موجود ہیں۔ بھارتی میڈیا نے اس سے ملتی جلتی خبروں کی توثیق 26جون کو کر دی کہ ضلع ڈوڈہ سے تمام آتنگی مارے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ شوپیاں، اننت ناگ سے بھی یہی صورتحال ہے۔ اس پوائنٹ پر امیت شاہ سے سوال ہے کہ سری نگر و مذکورہ بالا اضلاع کے مسلمانوں کو خفیہ طور پر کس نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے؟ کشمیریوں کے رہائشی علاقوں میں مذہب شعائر و مقامات کو دانستہ طور پر ہینڈ گرنیڈ سے کیوں مسمار کیا گیا۔ اگر یہ محض الزام ہے تو سری نگر کے لال چوک، ڈاؤن ٹاؤن و دیگر کی سٹیلائٹ تصاویر وائرل کی جائیں۔ اس میں تو کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائیگا کہ بارود کہاں کہاں استعمال ہوا اور فوج کی چوکیاں کدھر ہیں؟ میری اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل سے درخواست ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے معاملات میں براہِ راست مداخلت کر کے ’’نوگو ایریا‘‘ کے چسپاں بورڈ ہٹائے تاکہ انٹرنیشنل غیر جانبدار میڈیا بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا پر عیاں کر سکے۔

مزیدخبریں