حافظ زبیر علی زئی

محدث العصر حافظ زبیر علی زئی مرحوم کی چند یادیں اور الحدیث کا آپ کی حیات و خدمات پرخصوصی شمارہ

مولانا محمدسرور عاصم
حافظ زبیر علی زئی عصر حاضر کے عظیم محدث، مجتہدتھے۔ آپ وسیع النظر، وسیع المطالعہ اور کثیر الحافظہ تھے۔ حدیث، اصول حدیث، رجال اور اخبار و انساب کے امام تھے۔حافظ زبیر علی زئی نے تین سے چار ماہ میں قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ نے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی وفاق المدارس السلفیہ سے شہادہ العالمیہ کی سند بھی حاصل کی۔ نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔ آپ اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پردسترس رکھتے تھے۔ جن میں عربی، اردو، پشتو، انگریزی، یونانی، فارسی اور پنجابی زبان شامل ہیں۔آپ کی متعدد علمی و تحقیقی تصانیف کے علاوہ احادیث پرتحقیق و تخریج کا کام بھی کیا۔ حافظ زبیر علی زئی اتنہائی سادہ لوح، بے تکلف ہنس مکھ اور نرم دل ونرم مزاج آدمی تھے۔ شیخ زبیر علی زئی آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا۔ تقریبًا ڈیڑھ ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے۔ اور پھر بروز اتوار 5 محرم الحرام 1435 ہجری بمطابق 10 نومبر 2013 عیسوی میں اس دنیا سے رخصت ہو کر خالق حقیقی سے جاملے۔ راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ سے ملنے اور ان سے اکتساب فیض کا بھی موقع ملا جس کا ذکر ماہ نامہ الحدیث کے ’’محدث العصر نمبر ‘‘میں بڑی تفصیل سے کیا ’’آج سے بائیس سال قبل ایک دوپہر کو محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد میں داخل ہوتے ہیں، احوال دریافت کرنے کے بعد مسکراتے ہوئے بولے: ’’ سرور صاحب! کیا آپ میری کتاب نورالعینین شائع کریں گے؟‘‘
آپ نے جب نورالعینین کا ذکر کیا تو میرے سامنے ماضی کے دریچے کھل گئے۔ دور طالب علمی سے ہی مناظروں کا بہت شوق تھا اور مسئلہ رفع الیدین پر جس کتاب سے اطمینانِ قلب اور مخالفین کا ناطقہ بند ہوتا وہ یہی کتاب تھی۔ آپ کے سوال پر بغیر سوچے سمجھے فوراً ’’ہاں‘‘ میں جوا ب دیا۔ شیخ محترم کے ساتھ میری یہ ملاقات اس اعتبار سے بڑی اہم تھی کہ محبت وقربت کی ایسی راہیں ہموار ہوئیں کہ آپ اکثر یہ فرمایا کرتے تھے: ’’سرور صاحب! ہمارا تعلق و آپس کی محبت ،موت کے علاوہ ختم نہیں ہوسکتی۔‘‘ اور آپ اپنے قول کے اتنے پکے تھے کہ زندگی بھر ساتھ نہیں چھوڑا، اور اب بعدازوفات آپ کی یادیں ساتھ نہیں چھوڑتیں شاید ہی کوئی دن ایسا ہوکہ آپ کا تذکرہ خیر نہ ہو اور آنکھیں نم نہ ہوں۔
شیخ محترم کی یہ خوبی تھی اگر کوئی خامی محسوس کرتے تو اصلاح کی غرض سے فوراً آگاہ کرتے اور اگر کوئی اچھائی دیکھتے تو اس کی بھی خوب تعریف کرتے۔ میری زندگی میں ڈسپلن کو خاص اہمیت حاصل ہے، ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ نہ اپنا وقت ضائع کروں اورنہ دوسروں کو انتظار کی تکلیف سے دو چار کروں،یہی وجہ ہے مجھے شیخؒ اکثر کہا کرتے کہ سرور صاحب! جس طرح فوج میں ڈسپلن ہوتا ہے آپ بھی اسکی عملی تصویر ہیں، ہر کام پورے منظم طریقے سے کرتے ہیں اور کئی قسم کی دشواریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔میرے گھر سے اس قدر مانوس تھے کہ آپ واضح طور پر کہہ دیتے تھے کہ لاہور آنے کے باوجود ایسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ میں حضرو گھر میں ہی ہوں کہ لکھنے پڑھنے اور کھانے پینے میں کسی قسم کی کوئی دقت محسوس نہیںہوتی۔ میرے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے، جب بڑے بیٹے ثوبان کا آپریشن ہوا تو کئی دن میں نے بتایا ہی نہیں، پھر دعا کی غرض سے بتایا تو بہت پریشان ہوئے اور فوراً تیمارداری کے لیے آنے کی نوید سنا دی ۔جس دن آپ کو اٹیک ہوا تھا اس دن ہمارے پاس آنے ہی کی تیاری میں مصروف تھے لیکن کسے خبر تھی کہ اب شیخ محترم کبھی نہیں آپائیں گے۔
آپ تہجد گزار تھے اور تھوڑا سا بھی وقت میسر آجاتا تو اسے علمی کام کے لئے غنیمت جانتے۔ ایک دفعہ رات کے آخری پہر آپ کو دیکھنے کے لئے مہمان خانے میں داخل ہوا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں، دیکھا تو آپ اپنے سامنے مختلف خطوط رکھے ہوئے ہیں مجھے دیکھتے ہوئے ہی بولے: ابھی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو سوچا لوگوں کے سوالات کے جوابات ہی لکھ دوں۔
یہ حقیقت ہے کہ حافظ زبیرعلی زئیؒ کی وفات سے نہ صرف یہ کہ علمی طور پر ایک خلا واقع ہوگیا ہے بلکہ ہمارے جیسے سایہ عاطفت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ وہ جس شفقت اور محبت سے دینی معلومات سے روشناس کرواتے تھے اب ڈھونڈنے سے بھی ملنے کو رہے۔ ایک دفعہ لاہور شہر میں فتویٰ کمیٹی بنائی گئی اور ملک بھر سے ممتاز اہل علم اور شیوخ الحدیث کو دعوت دی گئی، آپ بھی حضروسے تشریف لائے اور مجھے ساتھ لے لیا، جب میں نے کبار علماء کو دیکھا تو وہاں سے نکلنا چاہا۔ آپ نے محسوس کرلیا اور میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے بولے: آپ بھی عالم دین ہیں اور آپ کو بھی مستفید ہونا چاہیے۔
شیخؒ شمع کی طرح تھے کہ پروانے دور دور سے کچھے چلے آتے تھے۔ جب اہل علم کو خبر ہوتی کہ حافظ زبیر علی زئیؒ تشریف لائے ہیں تو میرے گھر میںآمدورفت بڑھ جاتی تھی اور میرے بچے بھی علمی برسات سے خوب محظوظ ہوتے۔ثوبان اور نعمان دونوں کو آپ سے بڑی عقیدت و محبت تھی جب آپ بیمار ہوئے اور میرا ہسپتال میں جانا رہتا تھا تو ضد کرکے لاہور سے اسلام آباد تیمارداری کیلئے گئے حالانکہ یہ دونوں لمبے سفر سے بہت گھبراتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی محبت دلوں میں راسخ ہو جاتی ہے جو دعاؤں کی صورت میں ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ ہم اللہ کے حضور دعاگو ہیں کہ ہمارے شیخ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، ان کی حسنات کو شرفِ قبولیت بخشے۔ ان کی تحریرو تقریر کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور ہمیں اس کی اشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔
محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی کی حیات وخدمات پر ماہ نامہ الحدیث نے ایک خصوصی شمارہ شائع کیا جس میں آپ سے خط وکتابت‘ نادر تحریریں کے ساتھ حافظ زبیرعلی زئی کے علمی وتحقیقی کاموں پر پروفیسر ڈاکٹر سہیل احمد‘ پروفیسر ڈاکٹر خالد ظفر اللہ‘ مولانا عبدالرشید عراقی‘ قاری یحییٰ رسول نگری‘ حافظ صلاح الدین یوسف‘ مولانا محمد عزیر شمس‘ مولانا محمد اسحاق بھٹی‘ مولانا یحییٰ عارفی‘ مولانا حبیب الرحمن ہزاروی سمیت دیگر شخصیات نے شیخ الحدیث حافظ زبیرعلی زئی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اسی طرح آپ کی شخصیت پر مولانا ارشاد الحق اثری‘ پروفیسر ڈاکٹر وصی اللہ‘ مولانا عبداللہ ناصر رحمانی‘ مولانا عارف اثری‘ مولانا یٰسین ظفر‘ ابو خالد‘ عبدالمجید شاکر‘ پروفیسر محمدبخش محمدی‘ حافظ یحییٰ الحداد اور دیگر شامل ہیں ۔ اسی طرح تعزیت نامے سمیت حصہ انٹرویو ،سفرنامہ اور منظوم خراج عقیدت بھی اس خصوصی شمارے کا حصہ ہے۔ حافظ ندیم ظہیر کی زیر ادارت شائع ہونے والا’’ الحدیث‘‘ کا خصوصی شمارہ محدث العصر حافظ زبیرعلی زئی کی علمی حیثیت کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے۔

ای پیپر دی نیشن