مکرمی! ممبئی کے سانتا کروز قبرستان میںلیجنڈ یوسف خان المعروف دلیپ کمار کو جب سپرد خاک کیا گیا تو ایک عہد تمام ہو گیا۔ بھلا ہو مسز دیویکا رانی کا جن کی نظر ایک ہیرے پر جا ٹھہری۔ جب جب بھی دلیپ کمار کا نام لیا جائے گا۔ مسز دیویکا رانی کا نام بھی زندہ رہے گا۔ میں نے بچپن سے سُنا تھا کہ مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر جب انگریزی بولا کرتے تھے تو انگریز ڈکشنری کھول کر بیٹھ جاتے تھے۔ برصغیر نے پھر دلیپ کمار کو انگریزی بولتے سُنا تو پھر دوبارہ ڈکشنریاں کھلنا شروع ہو گئیں۔ کیا اعلیٰ ظرف تھا کہ دلیپ کمار اگر فلم میں جس اداکارہ کے ساتھ ماں ، بھابی ، بہن اور بھائی کا کردار کر لیتے تھے پھر اس اداکارہ کے ساتھ فلم میں بھی رومانوی کردار نہیں کرتے تھے۔ پشاور کا یہ سپوت خاندان سمیت 1933ء میں بمبئی چلا گیا تھا۔ یوں ایک لازوال اور بے مثال کردار بمبئی میں رونق افروز ہوا۔ برصغیر کی فلم انڈسٹری کو ایک عروج مل گیا ۔ پھر فلمی تاریخ اس رومانوی شخصیت کی اسیر نظر آنے لگی۔ ایک دنیا دلیپ کمار کو ایوارڈ دیتے دیتے تھک گئی ۔ کوئی ایوارڈ بچا ہی نہیں ج و دلیپ کمار کو نہ دیا گیا ہو۔ تقریباً نصف صدی تک فلمی شائقین کو اپنے رومانوی اور جذباتی اداکاری کے سحر میں دلیپ کمار نے جکڑے رکھا۔ بڑی اچھی طرح یاد ہے مجھے جب فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ پاکستان میں ریلیز ہوئی تو خصوصاً لاہور میں یہ فلم دیکھنے ہمارے عزیز رشتہ دار بہاولپور سے آئے اور دلیپ کمار کی انتہا کو چھوتی اداکاری اور منفرد ڈائیلاگ کے سحر میں مبتلا ہو جاتے۔ اداکارہ سائرہ بانو ان کی شریک حیات بنی۔ مگر دلیپ کمار اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رہے۔ (شمیم احمد ، لاہور)
دلیپ کمار ۔۔۔ ایک عہد کا خاتمہ
Jul 17, 2021