سینٹینٹ 

تھائی لینڈ کے نیشنل پارک سے خبر ہے کہ ایک ہاتھی کا بچہ گہرے گڑھے میں جا گرا۔ اسکی ماں نے اسے نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی۔ بچہ صورتحال دیکھ کر رونے لگا تو اسے روتا دیکھ کر ماں شدت غم سے بے ہوش ہو کر گر گئی۔
نیشنل پارک باغ جناح کی طرح کا کوئی پارک نہیں ہوتا۔ دراصل یہ جنگل ہی کا دوسرا نام ہے جو سرکار کی خصوصی تحویل اور حفاظت میں ہوتا ہے اور سیاحوں کی سہولت کیلئے اس میں راستے بنا دیئے جاتے ہیں۔ ان پارکوں میں محکمہ جنگلات اور ریسکیو والوںکی ٹیمیں بھی گردش کرتی رہتی ہیں۔ چنانچہ جب ریسکیو والوں کو پتہ چلا تو وہ مدد کو آئے۔ پہلے کرین کی مدد سے بچے کو نکالا پھر ہتھنی کو آکسیجن دی جس کی سانس اکھڑ رہی تھی۔ ہتھنی ہوش میں آئی تو بچے کو گڑھے سے باہر اپنے پاس دیکھ کر حیرت اور خوشی سے نہال ہو گئی اور بچے کو لے کر درختوں میں گم ہو گئی۔ 
اس واقعے سے ہاتھی کے احساسات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر انسانوں کے قریب ہے۔ انسانوں میں بھی کسی ماں کا بچہ مصیبت میں آ جائے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے اور کوئی ماں تو بے ہوش بھی ہو جاتی ہے۔ دکھ یکساں ہوتا ہے لیکن ہر ماں بے ہوش نہیں ہوتی۔ یہ اعصاب کی درجہ بندی ہے جو جیسی انسانوں میں ہے ویسی ہی ہاتھی اور دوسرے جانوروں میں۔
یورپ امریکہ وغیرہ میں جانوروں کے بارے میں معلومات کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے اور کئی ملکوں نے انہیں انسانوں ہی جیسا حساس وجود (SENTIENT) تسلیم کر لیا گیا ہے۔ انسان اور جانور میں فرق ذہانت اور عملی مہارت کا ہے۔ دکھ سکھ پریشانی خوف و ہراسانی اضطراب اور بچاؤ کی تمام جبلتیں ویسی ہیں جیسی انسان میں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو آئی تھی کہ جنگل میں جاتے ہوئے ایک صاحب گڑھے میں گر گئے۔ گڑھا گہرا تھا‘ نکلنے کی سبیل نہ تھی۔ گڑھے کے پاس کچھ بن مانس موجود تھے‘ ان میں سے دو گڑھے میں اترے اور ان صاحب کو باہر لے جا کر چھوڑ دیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ یوں ہوا کہ کوئی صاحب ندی میں نہا رہے تھے۔ پاس سے ہاتھی گزرے‘ ان صاحب نے ندی میں ڈوبنے کا ڈرامہ کیا اور ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔ ایک ہاتھی لپک کر پانی میں اتر گیا اور ان صاحب کو سونڈ سے پکڑ کر کنارے پر ڈال دیا۔ انسانوں میں سے شکاریوں کے جتھے جنگل میں گھسنے اور خود کار اسلحہ سے ان کا بے دریغ قتل عام کرتے ہیں۔ آج ہی کی ایک اور خبر ہے کہ افریقہ میں ببر شیروں اور گینڈوں‘ ہاتھیوں کا اس بری طرح سے قتل عام ہوا ہے کہ مختصر وقت میں ان کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔ خدا نے ہمارے سیارے میں جانوروں کا حصہ بھی رکھا ہے جو ہم ان سے مسلسل چھینتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کے رہنے سہنے کی جگہ دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی نسلیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔
ہمارے بچے کم سنی میں مدت کے تصور کو نہیں سمجھتے‘ یہی حال جانوروں کا ہے‘ جوان اور بڑی عمر کے جانور مدت کا مطلب اور مفہوم اچھی طرح جانتے ہیں‘ یہاں تک کہ ان کو طبعی موت کی صورت میں یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ مرنے والے ہیں‘ اور موت سے مفر نہیں چنانچہ یہ جانور اپنے گلے یا ریوڑ سے الگ ہو کر دور کسی گوشے میں چھپ جاتے ہیں اور پڑے پڑے مر جاتے ہیں۔ بھارت اور افریقہ میں تو ہاتھیوں کے قبرستان مخصوص ہوتے ہیں جہاں موت کا احساس ہوتے ہی ہاتھی چلے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کو ہاتھیوں کے ڈھانچے اور ہڈیاں دور دور تک پھیلے نظر آئیں گے۔
لیکن بچوں کا معاملہ الگ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو کسی نے شیئر کی۔ ویڈیو بنانے والے نے اسے نامکمل چھوڑ دیا‘ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ انجام کیا ہوا اور اس طرح یہ ویڈیو بہت دردناک ہو گئی۔ ویڈیو یوں تھی کہ ایک گلی کے بغلی کوچے میں کوئی دکان یا مکان ہے جو بظاہر بے آباد لگتا ہے۔ اس کے باہر ایک کونے میں ایک بلی مری پڑی ہے۔ بلی کی حالت بتاتی ہے کہ اسے مرے زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ یہ کیسے مری؟ حادثے میں یا کسی آدمی نے اسے مار دیا‘ ویڈیو میں نہیں بتایا گیا۔ بلی کی لاش کے ساتھ اس کا دو اڑھائی ہفتے کا چھوٹا سا بچہ اداس حالت میں بیٹھا ہے۔ وہ بار بار ماں کو ہلاتا ہے‘ اس کے منہ سے اپنا منہ ملاتا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ماں بیمار ہے‘ اٹھ نہیں پا رہی۔ وہ نہیں جانتا کہ یہ مر گئی ہے۔ کافی دیر وہ اسے جگانے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے‘ پھر بغلی گلی سے نکل کر بڑی گلی میں آ جاتا ہے۔ کیمرے والا اس کے پیچھے پیچھے ہے۔
بظاہر لگتا ہے ماں سے مایوس ہو کر کسی اور جگہ جانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ بہت چھوٹا ہے‘ تیزی سے چل سکتا ہے نہ دوڑ سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ چلے بھی جا رہا ہے‘ دائیں بائیں بھی کبھی کبھی دیکھ رہا ہے۔ لمبی گلی پوری کی پوری عبور کر جاتا ہے اور اچانک اس کی نظر کسی چیز پر پڑتی ہے۔ یہ کسی مرے ہوئے جانور کی ہڈی ہے یا شاید کسی آدمی نے گوشت کھا کر ہڈی باہر پھینک دی ہے۔ بلی کا بچہ اس کے پاس جاتا ہے اور اسے یاد آتا ہے کہ ماں کبھی کبھی یہ چیز منہ میں اٹھا کر لایا اور کھایا کرتی تھی۔ خود تو وہ کوئی شے کھانے کے قابل نہیں ہے‘ ابھی شیر خوار ہے۔
وہ ہڈی منہ میں دباتا ہے اور اسی طرح آہستہ آہستہ چلتے واپسی کا سفر اختیار کرتا ہے۔ ماں کے پاس آ کر ہڈی اس کے منہ کے پاس رکھ دیتا ہے۔ ماں بیمار ہے‘ کمزور ہے‘ یہ ہڈی کھائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر مجھے دودھ پلائے گی‘ وہ بار بار ماں کو ہلاتا ہے کہ دیکھو ماں‘ تمہارے لئے کیا لایا ہوں لیکن ماں نہیں اٹھتی۔ یہاں ایک بہت اداس دھندلکے میں یہ ویڈیو ختم ہو جاتی ہے۔ پتہ نہیں چلتا کہ ویڈیو بنانے والے نے اس بچے کو ریسکیو کر لیا یا محض اپنی تفریح طبع کیلئے اس نے یہ کلپ ریکارڈ کیا ہے۔
اب آپ بچے کی اس واردات پر کیا کہیں گے؟ ایک دو اڑھائی ہفتے کا شیر خوار بلی کا بچہ اتنا شعور اور احساس رکھتا ہے کہ ماں اس لئے نہیں اٹھ رہی کہ بیمار ہے یا کمزور ہے‘ اس کیلئے وہ اپنی طاقت سے بڑھ کر سفر کرتا ہے جو عام حالت میں اس کیلئے ممکن نہ ہوتا‘ ہڈی ڈھونڈ کر لاتا ہے اس امید میں کہ ماں ٹھیک ہو جائے گی؟
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بالعموم جانوروں میں انسان کے پانچ سالہ بچے  کے برابر ذہانت اور تصور ہوتا ہے اور سینٹینٹ ہونے کے اعتبار سے انسان محض اس فرق کے ساتھ کہ ان کی یادداشت کا دورانیہ کم‘ صبر کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
میرے پاس ایک کتے کی ویڈیو بھی ہے‘ بہت ہی رلا دینے والی۔ یہ دو کتے تھے‘ باہم دوست تھے یا بھائی‘ ہر دم اکٹھے رہتے تھے۔ ایک دن کسی گاڑی نے ایک کتے کو کچل دیا۔ وہاں کے لوگوں نے مرے ہوئے کتے کو اٹھایا‘ ایک بغلی سڑک اندر جنگل کو جاتی تھی‘ وہاں لے جا کر گڑھا کھودا اور اسے دفنا دیا۔ زندہ کتا ساتھ ساتھ تھا۔ وہ رات گئے تک قبر پر بیٹھا رہا۔ اگلے دن رزق کی تلاش میں واپس سڑک پر آ گیا۔ لیکن …
لیکن ہر روز وہ حادثے کے وقت جنگل جاتا‘ ساتھی کی قبر پر کھڑا ہو جاتا‘ دفعتاً اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار پھوٹتی‘ دردناک آواز میں انسانوں کی طرح دھاڑ مار کر روتا۔ پھر یک دم آنسو جھٹک کر رونا بند کر کے واپس اپنے روزگار کے اڈے پر آ جاتا۔
وڈیو میرے پاس ہے‘ دوبارہ دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن