خیریت پوچھنے کے بعداِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں جب انکے ذریعۂ آمدنی کے بارے میں استفسار کیا گیا تو یکا یک ان کا چہرہ زرد ہوگیا اور انہوں نے ٹھنڈا سانس لیتے ہوئے کہا کہ یہ ذرائع تو اس وقت تک ساتھ دیتے ہیں جب تک انسان میں حرکت کی قوت ہو، جب یہ قوت ہی جواب دے جائے تو ذرائع آمد آخر کہاں تک ساتھ دیں؟
’’آپ لیل و نہار کو اپنے اشعار کیوں نہیں بھیجتے، اس سے کچھ نہ کچھ بن جایا کرے گا‘‘ میں نے کہا۔
احمد ریاض نے میری زبان سے یہ تجویز سُنی تو ناراضی سے کہا۔ ’’ اس تصور سے شعر کہنا میرے بس کی بات نہیں ہے کہ میں جو کچھ کہوں گا اس کا کچھ نہ کچھ معاوضہ ملے گا۔ میں اسی وقت شعرکہتا ہوںجب یہ مجھ پر وارد ہوتا ہے۔ میں معاوضے کے حصول کیلئے اپنی طبیعت پر جبر کرکے ایک مصرعہ بھی تو نہیں کہہ سکتا‘‘۔
زندگی کی ناآسودگی کا ذکر چلا تو ریاض صاحب کی آنکھیں بھر آئیں اس مرحلہ پر ان کو ضبط کا یارا نہ رہا۔ رشتہ داروں کی پہلو تہی اور ان کے فن کے قدردانوں کی چشم پوشی احمد ریاض شاکی تھے کہ علاج معالجہ تو کیا آب و دانہ کی پریشانی انہیں پل بھر اطمینان اور چین نہیں بخشتی۔ انہوں نے جہاںیہ شکوہ کیا وہاں انکی آنکھیں، ان دوستوں کی راہ میں بچھی جارہی تھیں جنہوں نے لاہور، منٹگمری اور لائل پور سے چک جھمرہ کا سفر صرف اس لئے کیا کہ احمد ریاض کو دیکھ سکیں اور اپنی بساط کے مطابق اس کی مدد کرسکیں۔احمد ریاض کے بقول ان کے یہ مربّی نہ تو ادیب تھے اور نہ صحافی بلکہ ان میں سے ایک لائل پور کا خوش نویس تھا، دوسرا لائل پور کا ایک دوکان دار جو احمد ریاض کے نغمات میں اپنے جذبات و احساسات کی عکاسی پاتا تھا۔ لائل پور کے ایک پریس کا مالک بھی احمد ریاض کے نزدیک اس کا محسن تھا مگر جن سے اسے یہ امید تھی کہ وہ اس کا دکھ بٹائیں گے وہ اس کی مجبوریوں اور بے چارگیوں کا جنازہ اٹھتا دیکھتے رہے اور ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔
احمد ریاض کہتے ہیں،’’عید کا چاند دیکھ کر ایک مرتبہ میری آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب امڈ آیا یہ میرے اس خیال کا ردعمل تھا کہ میری ننھی بچی کے پاس عید کیلئے نئے کپڑے نہ تھے جنہیں زیب تن کرکے وہ محلے کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔ میں اسی پریشانی سے مغلوب اپنے بستر میں دبک گیا۔ رات کے سائے پھیلنے لگے، معاً دروازے پر دستک ہوئی، میری بیوی نے دروازہ کھولا، باہر سے ایک شخص بولا،’’ریاض صاحب کہاں ہیں؟‘‘میری بیوی نے جواب دیا،’’وہ تو سورہے ہیں‘‘ اجنبی شخص نے ایک لفافہ میری بیوی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا،’’یہ ریاض صاحب کو دے دیں‘‘ میری بیوی نے لفافہ کھولا تو یہ دیکھ کر اسکی حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ اس میں انکی ننھی بچی کے ملبوسات تھے، اب میں حیران و پریشان ہوں کہ میرا وہ محسن کون تھا؟‘‘
اس ملاقات کے دوران احمد ریاض نے بتایا،’’میں کچھ عرصہ قبل اپنا مجموعہ کلام لے کر لاہور کے ایک ناشر کی خدمت میں حاضر ہوا کہ وہ اس کی اشاعت کی ذمہ داری لے لے، جب میں نے اسے اپنا مجموعہ کلام دکھایا تو جناب ناشر نے مجھے پچاس روپے رائلٹی کی فراخ دلانہ پیش کش کی اور میں اپنا سا منہ لے کر لوٹ آیا‘‘
احمد ریاض نے اپنے ایک دوست سے اپنی اقتصادی الجھنوں کا ذکر کیا تو اس نے اپنا منہ احمد ریاض کے کان کے قریب لے جاکر کہا،’’میرے شاعر روزی کمانا چاہتے ہو تو کسی سیاسی پارٹی کی شان میں قصیدے لکھا کرو‘‘ احمد ریاض نے کہا،’’ اس سے بہتر ہے کہ موت آجائے‘‘ اور اس واقعہ کے چند مہینے بعد احمد ریاض نے واقعی موت سے سودا کرلیا۔
احمد ریاض عمر بھر غمِ روزگار میں مبتلا رہے اور اس غم نے انہیں اتنا مجبور کردیا تھا کہ وہ خود کہتے ہیں: -
وہ نگاہیں جو مجھے دیکھ کے جُھک جاتی تھیں
ان نگاہوں سے بھی مانگا ہے سہارا میں نے
ملک کی تقسیم پر ہونیوالے المیہ نے احمدریاض کو بُری طرح متاثر کیا اور ان کا قلم حرکت میں آیا:
نہ نفرتیں سربلند ہوںگی نہ شورشیں سرفراز ہوں گی
نہ جانے کتنا سکوت ہوگا وجود دیر و حرم سے پہلے
پھر کہتے ہیں
میرے پنجاب کے بلّورو جواں سینے پر
پانچ دریائوں کی شفاف لکیریں تھیں رواں
کھینچ دی کس نے یہ اک اور لہو رنگ لکیر
پانچ دریائوں کی شفاف لکیروں کے میاں
غمِ حیات کبھی فکرِ کائنات کبھی
کوئی ہماری طرح اتنے دکھ اٹھائے کیوں
وہی کہا ہے جو محسوس کرلیا ہے ریاض
مری بیاض میں حُوروں کے واقعات نہیں
پھر کہتے ہیں۔
کوئی بھی چیز یہاں حاصلِ حیات نہیں
میں جی رہاں ہوں مگر کوئی خاص بات نہیں
وہ دیکھ ایک ستارہ لرز کے ٹوٹ گیا
ہمارے پیار کی یہ آخری تو رات نہیں
تری بزم کے درو بام سے تری زلف کی شبِ تارتک
جو کرم بھی ہم پہ روا ہوئے تو برنگِ جوروستم ہوئے
مری آرزو! تری آبرو کی شکست کا یہ مقام ہے
مرا درد حسنِ جہاں بنا ترے اشک نقشِ حرم ہوئے
شبِ زندگی کے غبار میںجنہیں اک سحر کی تلاش ہے
وہی لوگ دار پہ کھنچ گئے وہی صیدِ جورو ستم ہوئے
تیرا غم بھی ہے بڑی بات مگر کیا کیجئے
کوئی غم ہے جو نہیں ہے غمِ انساں کے قریب
ہزار قربتِ رخسار و لب نصیب نہ ہو
دل و نظر میں لئے سوزِ انتظار چلو
فنا سے کھیلنے والوں نے زندگی پائی
تمہارے بس میں سہی اہتمامِ دار چلو
آمدِ صبح سے مایوس نہیں ہیں لیکن
ڈس نہ لے تیرگیٔ شامِ غریباں یارو
لاکھ ہم مرحلۂ دارو رسن سے گزرے
زندگی سے نہ ہوئے پھر بھی گریزاں یارو
اپنا دکھ ہو تو ریاض اس کا مداوا کرلے
ہیں سبھی شعلہ بجاں چاک گریباں یارو
ریاض ’’آپ بیتی‘‘ کے عنوان سے ایک نظم میں کہتے ہیں۔
میں نے جب عظمتِ آدم کو بچانا چاہا
ثبت کردی گئی ہونٹوں پہ میرے مُہرِ ستم
میں نے جب صبح کا پیغام سنانا چاہا
ظلمتِ شب نے کئے میرے جواں ہاتھ قلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)