پنجاب کے 20 حلقوں کے عوام نے آج اپنے ووٹوں سے اپنے حلقوں کے نمائندے منتخب نہیں کرنے بلکہ 12 کروڑ عوام پر حق حکمرانی کا فیصلہ دینا ہے۔ 20 حلقوں کے ووٹرز پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے اپنے ووٹ کے ذریعے ایک طرح سے پنجاب کے حکمران کا فیصلہ کرنا ہے۔میدان سج چکا ہے دونوں جانب سے تیاریاں مکمل ہیں دیکھتے ہیں کون کس کو مات دیتا ہے۔ رات تک رزلٹ آجائے گا لیکن آج کا دن بہت بھاری ہے کیونکہ کشیدگی عروج پر ہے اور ہر کوئی چھین لینے کے چکروں میں ہے اطلاعات بھی اچھی نہیں مل رہیں۔ اللہ رحم کرے اور پر امن طریقے سے انتخابی عمل مکمل ہو جائے۔ اللہ کرے سارا عمل صاف شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے مکمل ہو تاکہ نتائج پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے انتخابات ایسے فول پروف طریقے سے شفاف ہونے چاہئیں کہ عوام مطمئن ہوں کہ کہیں کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی سیاسی رہنماؤں نے تو آج تک کسی انتخاب کا نتیجہ تسلیم نہیں کیا اور اس کا بھی نہیں کریں گے لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ عوام انتظامات سے مطمئن ہوں مجھے افسوس ہے کہ میں ان انتخابات کو براہ راست آبزرو نہیں کر رہا حالانکہ الیکشن میرا پسندیدہ ایشو ہے اور 1988ء سے لے کر آج تک ہونے والے تمام انتخابات کی براہ راست کوریج بھی کرتا رہا ہوں لیکن کیا کیا جائے اپنے یار کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے لاہور سے آنا پڑا دراصل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے روح رواں سلمان ملک نے گلگت بلتستان حکومت کی دعوت پر صحافیوں کا ایک وفد ترتیب دیا تھا اور وہ مجھے زبردستی لے آیا ابھی ہم راستے میں ہیں ہم نے بٹہ کنڈی میں ایک دن قیام کیا اور اس وقت میرے کمرے کے باہر دلکش نظارہ ہے ایک طرف پہاڑوں کی خوبصورت بلند چوٹیاں ہیں اور دوسری طرف دریائے کنہار کا منہ زور پانی پتھروں پر اپنا سرپٹختا ہوا شور مچا رہا ہے لیکن میرا ذہن لاہور میں ہی اٹکا ہوا ہے خاص کر لاہور کے چار حلقوں میں انتخابی معرکہ دیکھنے والا تھا بلکہ پنجاب بھر کے مختلف علاقوں سے لمحہ بہ لمحہ آگاہی حاصل کرنے کا اشتیاق تھا لیکن ہم تو سفر میں ہوں گے بدقسمتی سے ان علاقوں میں موبائل اور نیٹ کے سگنل بھی نہیں آتے بہرحال آج کا دن بڑا تاریخ ساز ہے۔ 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن نے بہت کچھ طے کرنا ہے سب سے اہم مستقبل کی سیاست کے حوالے سے آج کے انتخابات نے بہت ساری ڈائریکشن سیٹ کرنی ہیں۔ ان نتائج نے طے کرنا ہے کہ پنجاب پر کون حکمرانی کرے گا حمزہ شہباز کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے 20 میں سے 9 نشستیں درکار ہیں لیکن حمزہ شہباز کے لیے مشکلات بڑھ گئی ہیں ان کے اپنے 2ووٹ کم ہو گئے ہیں اب انھیں حکومت برقرار رکھنے کے لیے 11سیٹیں جیتنا ضروری ہے جبکہ تحریک انصاف کو پنجاب میں حکمرانی کے لیے 12 نشستوں پر کامیابی درکار ہے دراصل یہ تمام نشستیں تحریک انصاف کی تھیں لیکن مرکز میں تبدیلی نے پنجاب کی بھی چولیں ہلا دیں اور تحریک انصاف کے 25 ارکان منحرف ہو کر مسلم لیگ ن کو ووٹ دے کر حمزہ شہباز کو وزیر اعلی بنا بیٹھے اب ووٹ دینے کی پاداش میں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونے والے بھی ہاتھ مل رہے ہیں کہ پتہ نہیں وہ دوبارہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں اور تحریک انصاف کو بھی پتہ نہیں کہ وہ مطلوبہ تعداد میں کامیابی حاصل کر پاتی ہے یا نہیں۔ انھیں یہ بھی یقین نہیں کہ وہ مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔ دوسری جانب فی الحال تو حمزہ شہباز شریف وزیر اعلی ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ وہ ہاتھ آئی ہوئی طاقت کو استعمال کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشیں۔ اگر موجودہ رجیم کو برقرار رکھنا مقصود ہے تو پھر پنجاب میں ان کی حکومت کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اگر تحریک انصاف پنجاب میں کامیابی کی صورت میں پنجاب کا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پی ڈی ایم کی مرکزی حکومت بھی گئی کیونکہ میاں شہباز شریف کی ایسی صورت میں صرف اسلام آباد اور چند وفاقی محکموں تک حکومت محدود ہو کر رہ جائے گی۔ نہ جانے کیوں مجھے ان ضمنی انتخابات کے بعد بھی حالات مستحکم ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے بلکہ مزید انتشار بڑھتا دکھائی دے رہا ہے اگر تحریک انصاف صوبائی دارالحکومت کے چار حلقوں میں ن لیگ کو مات دینے میں کامیاب ہو گئی تو مسلم لیگ ن کی سیاست میں بہت بڑا ڈینٹ پڑ جائے گا اور اگر مسلم لیگ ن نے 12 نشستوں سے زائد پر کامیابی حاصل کر لی تو تحریک انصاف کی سیاست کو نقصان پہنچے گا۔ میرا تجزیہ ہے کہ لاہور میں تحریک انصاف کو دو یا تین نشستوں پر کامیابی مل جائے گی لیکن بعض دیہی حلقوں میں مسلم لیگ ن کی ضرورت پوری کر دی جائے گی ایسی صورت میں پی ڈی ایم کو اگلے سال تک وقت مل سکتا ہے لیکن زمینی حقائق ہر دن گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں ڈالر تمام تر کوششوں کے باوجود آؤٹ آف کنٹرول ہو رہا ہے کہا جا رہا تھا کہ فیول کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد ڈالر کی قیمت کم ہو جائے گی لیکن یہ تو کام الٹ ہو گیا ہے دراصل سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان کے ہرقسم کے معاملات خراب ہو رہے ہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کے اہم فیصلے کس کے حصے میں آتے ہیں جن میں آرمی چیف کی تقرری بھی شامل ہے۔ کیا یہ حکومت اپنی مرضی کا فیصلہ کر پائے گی؟ پنجاب کے انتخابی نتائج کے بعد عمران خان بارے بھی اہم فیصلے متوقع ہیں۔ آج کے بعد سیاست نئے فیز میں داخل ہو رہی ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔