کراچی(اسپورٹس رپورٹر )پی ایس ایل کے لیے دیگر لیگز خطرے کی گھنٹی بجانے لگیں جب کہ فروری 2023 میں 5 ایونٹس جاری ہوں گے۔پاکستانی لیگ کے لیے دیگر لیگز خطرہ بننے لگی ہیں، فروری 2023 میں 5 ایونٹس ہوں گے، ان میں بگ بیش، جنوبی افریقی لیگ،بنگلہ دیشی لیگ، یو اے ای انٹرنیشنل لیگ اور پی ایس ایل شامل ہیں، ان کیلیے اہم کھلاڑیوں کی دستیابی بڑا چیلنج بنے گی۔آسٹریلوی بگ بیش کا انعقاد 13 دسمبر سے4 فروری تک ہوگا،کرکٹ آسٹریلیا چونکہ ٹیموں کی ملکیت خود رکھتا ہے اس لیے اسے زیادہ نقصان کا خدشہ ہوگا، ایونٹ کو شائقین میں مزید مقبول بنانے کیلیے پہلی بار پلیئرز ڈرافٹ کا سہارا بھی لیا گیا، کرکٹ جنوبی افریقہ نے اپنے خالی خزانے بھرنے کیلیے نئی ٹی ٹوئنٹی لیگ جنوری میں کرانے کا فیصلہ کرلیا،اس کے لیے بورڈ نے نہ صرف آسٹریلیا سے ون ڈے سیریز قربان کر دی بلکہ ورلڈکپ میں براہ راست شرکت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔بنگلادیشی لیگ جنوری،فروری میں ہوگی۔یو اے ای انٹرنیشنل لیگ ٹی ٹوئنٹی کا انعقاد 6 جنوری سے 12 فروری تک ہونا ہے،اس کے ارب پتی فرنچائز مالکان نے اسٹار کرکٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے خزانے کے منہ کھول دیے ہیں۔ذرائع کے مطابق 2 پاکستانی سپر اسٹارز کو 12،12 کروڑ روپے کی بھی پیشکش کر دی گئی، پی سی بی نے ابتدائی طور پر کرکٹ آسٹریلیا سے رابطہ کر کے ایک پروپوزل دیا ہے جس کے تحت نان آئی سی سی فل ممبر ممالک اور پرائیوٹ پارٹیز کی لیگز کیلیے کھلاڑیوں کو ریلیز نہیں کیا جائے گا،اس حوالے سے چند دیگر بورڈز کو بھی ہم خیال بنانے کی کوشش ہوگی،واضح طور پر اس کا مقصد اماراتی لیگ کو ہدف بنانا ہے۔بھارتی بورڈ ویسے ہی اپنے کھلاڑی غیرملکی لیگز کیلیے ریلیز نہیں کرتا، اگر پاکستانی کرکٹرز بھی شریک نہ ہوئے تو یو اے ای کے ایونٹ کی چمک ماند پڑ جائے گی، دوسری جانب کھلاڑیوں کیلیے بھاری معاوضوں کی آفرز ٹھکرانا آسان نہیں، پی سی بی 40 فیصد تلافی ادا کر سکتا ہے جس کے باوجود انھیں بڑا نقصان ہوگا۔یو اے ای لیگ نے ابھی آکشن یا ڈرافٹ کا فیصلہ نہیں کیا مگر ہر فرنچائز کو پہلے ہی 4،4 کھلاڑیوں سے معاہدوں کی اجازت ہے،اسی لیے وہ اسٹارز سے رابطے کر رہی ہیں، ایونٹ میں 25 اماراتی جبکہ72 غیرملکی کرکٹرز کو رکھا جائے گا،12 رکنی ٹیم میں 9 غیرملکی اور 3 مقامی کرکٹرز شامل ہوا کریں گے۔ایک پی ایس ایل فرنچائز آفیشل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہم حیران ہیں پی سی بی کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے،10ماہ سے گورننگ کونسل میٹنگ بھی طلب نہیں کی گئی، یو اے ای لیگ میں کھلاڑیوں کو بھاری معاوضے دیے جا رہے ہیں، اپنے کھلاڑیوں کو تو بورڈ ڈرا دھمکا کر روک لے گا، غیرملکیوں کو کیسے راغب کیا جائے گا؟ کھلاڑی انسان ہیں مشین نہیں، وہ 2 ماہ کے دوران 5 لیگز میں کیسے شرکت کر سکیں گے؟ بیشتر دبئی سے ہی ڈالرز کا بیگ لے کر وطن واپس چلے جائیں گے، انھوں نے کہا کہ بورڈ کو اس حوالے سے ابھی سے کوئی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔ایک اور فرنچائز آفیشل نے کہا کہ پاکستان میں خود تین لیگز ہو رہی ہیں، حالانکہ پی ایس ایل کو ہی بڑا برانڈ بنانے پر کام ہونا چاہیے تھا، کے پی ایل کے بعد اب جونیئر لیگ کی تیاریاں جاری ہیں، جب ہم خود اتنی لیگز کرائیں گے تو دوسروں کو کیسے باز رہنے کا کہہ سکتے ہیں۔
پی ایس ایل