ناصر بشیر نے اپنے حکمرانوں کی لاہور کے بارے میں پون صدی کی کارگزاری ایک ہی شعر میں بیان کردی ہے ۔ وہ اگر دوسرا کوئی شعر نہ بھی کہتے تو انہیںیہی ا یک شعر زندہ جاوید رکھنے کو کافی ہوتا:۔
؎پیرس بنا رہے تھے اسے اہل انتظام
ابر کرم نے شہر کو وینس بنا دیا
انہوں نے اپنی ایک نظم کی رائلٹی کا مطالبہ کیا ہے جسے پنجاب حکومت یا پبلشر کوئی بھی ادا نہیں کر رہا ۔ پہلے ان کی یہ نظم پڑھ لیں پھر کالم کو آگے بڑھاتے ہیں :
پاکستانی بچے ہیں ہم امن سے اتنا پیار ہمیں
اپنے اندر کے دشمن سے لڑنا ہے اس بار ہمیں
دریا میں طغیانی ہے منجھدار میں کشتی ٹھہری ہے
لیکن ہم نے سوچ لیا ہے جانا ہے اس پار ہمیں
کلیاں دل کی کھل جائیں گی باد صبااٹھلائے گی
فصل بہارہے آنے والی دِکھتے ہیں آثار ہمیں
صحن چمن کی مٹی کو ہم اپنے خون سے سینچیں گے
اس کا اک اک صحرا آخر کرنا ہے گلزار ہمیں
ہم آنکھوں میں سپنے لے کر آگے بڑھتے جائیں گے
موت سے ہم کو ڈر نہیں لگتا جینے سے ہے پیار ہمیں
یہ نظم 2014ء میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے سانحہ پشاور پر بچوں کے دلوں سے دہشت گردوں کا خوف ختم کرنے کیلئے خاص فرمائش پر لکھوائی تھی ۔ پاکستان کری کوریم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نے یہ نظم میٹرک کے اردو کے نصاب میں’’ بہادر بچے ‘‘کے نام سے شامل کر رکھی ہے ۔ 2015ء میں پہلی سے بارہویں جماعت کے بچوں میں مفت تقسیم کیلئے ’’آئو مل کر پڑھیں ‘‘ کے عنوان سے تقریباً بیس لاکھ کتابچے چھاپے گئے ۔ اس میں بھی یہ نظم شامل تھی ۔ اس نظم کو پہلے صرف پانچویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیامگر بعد میں میاں شہباز شریف کے حکم پر میٹرک کے نصاب میں بھی شامل کر دی گئی ۔یاد رہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے چوتھی جماعت کے اخلاقیات کے نصاب میں بھی ناصر بشیر کی دو نظمیں شامل کر رکھی ہیں۔ اب جب اس کی جانب سے رائلٹی کا مطالبہ آیا ہے تو ادارہ ناصر بشیر کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ پروفیسر ناصر بشیر نے وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلیٰ کو آگاہ کیا ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بورڈ اور ایک پرائیویٹ ادارہ جو گزشتہ آٹھ برسوں میں اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں فروخت کر چکا ہے اور لاکھوں روپے کما چکا ہے مگر رائلٹی کے معاملہ میں شاعر کواس کے بنیادی حق سے محروم رکھا جارہا ہے ۔
اس علمی اور فلسفیانہ بات کو چھوڑیں کہ قومیں اور وطن شاعروں کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں پھر یہ سیاستدانوں کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ جیسے پاکستان پہلے ایک شاعر کا خواب ہی تو تھا۔ کالم نگار سیدھی بات کرتا ہے ۔ ناصر بشیر ایک محب الوطن نوجوان ہے جو بہتر مستقبل اور اپنے بچوں کی روزی روٹی کی تلاش میں ملتان سے لاہور پہنچا۔ داتا کی نگری میں برسوں سے کرایہ کے مکانوں میں مقیم ناصر بشیر اپنی رائلٹی کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ اس کے اس مطالبہ پرہمدردانہ غور ہی نہیں ، اسے فی الفور پورا کرنا چاہئے ۔شاعروں ، ادیبوں کے ساتھ پبلشرو ں کا معاملہ ہمیشہ سے غیر منصفانہ رہا ہے ۔ پچھلے دنوں دانشور ڈاکٹر مبارک علی بھی نوحہ کناں تھے کہ ان کا پبلشران کی ساری رائلٹی ہڑپ کر گیا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کی کتابیں چھاپ چھاپ کر امیر کبیر ہوجانے والا یہ پبلشر بوڑھے لاچار ڈاکٹر صاحب کو پھوٹی کوڑی ادا کرنے کو تیار نہیں۔ لاہور کے اسی پبلشر کے خلاف سرحد پار سے کلدیپ نیئر نے بھی حکومت پنجاب کو اپنی ایک ایسی ہی شکایت بھجوائی تھی لیکن اس پبلشر کے اثر رسوخ کے باعث کوئی نتیجہ بھی نہ نکلا۔ پھر کلدیپ نیئر کی موت سے یہ معاملہ ختم ہوگیا۔
’’چیک پوسٹ ‘‘کے لوگو سے کالم لکھنے والے اس شاعر اور کالم نگار ناصر بشیر کو چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں بننے والی پریس کلب کالونی میں بھی کوئی پلاٹ نہ مل سکا۔ حالانکہ اس کالونی میں بہت سے کالم نگار پروفیسروں کو پلاٹ مل گئے تھے ۔ لاہور بڑے دل گردے والا شہر ہے ۔ یہ بازو پھیلائے کھڑا ہے استقبال کیلئے ہر آنے والے کو سینے سے لگانے کیلئے ، مسافروں کیلئے سراپا چشم ۔ غزنی سے آنے والے سید علی ہجویری بھی تو مسافر ہی تھے ۔ پھر شہر لاہور نے انہیں کیسا قبول کیا ۔ سپردم بتو مائع خویش را۔پھر یہ میزبان لاہور داتا کی نگری کہلانے لگا۔ اب یہاں آنے والا ہر مسافر ان کے حضور جھک کر گزرتا ہے ۔ حنیف رامے اور غلام حیدر وائیں کے دور میں بھی بے شمار حرف شناس لوگوں کو چھوٹے موٹے رہائشی پلاٹ دیئے گئے ۔ پھر ان لوگوں نے جیسے تیسے کر کے ان پلاٹوں پر گھر کھڑے کر لئے ۔ علم فضل والے یہ لوگ جو کسی شہر بستی کی عزت اور شناخت کا باعث ہوتے ہیں ، اگر سرکاری طور پر مہیا کئے گئے ان پلاٹوں سے محروم رہتے تو کیا یہ لاہور میں اپنا گھر بنا سکتے تھے ؟ توپھر کیازندہ دلان لاہور سے محروم یہ لاہور ، لاہور ہوتا ؟
داتا کی نگری سے بے گھری کے کیا کیا دردناک واقعات پڑھنے سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ پرسوں ترسوں بھاٹی گیٹ کے علاقے نور محلے میں شارٹ سرکٹ سے تین منزلہ مکان کی دوسری منزل میں اچانک آگ بھڑک اٹھی ۔ آگ نے تینوں منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جھلسنے اور دم گھٹنے سے گھر کے دس افراد جاں بحق ہو گئے ۔ ڈیڑھ مرلہ مکان پر مشتمل اس مکان میں مقیم ‘مالک مکان نہیں کرایہ دار تھے ۔ یاد رہے جگہ کی کمیابی کے باعث لاہور کے اکثر قبرستانوں میں کرایہ دار مردوں کی تدفین کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لیکن اس’’ مرگ انبوہ ‘‘کے باعث ان میتوں کو تدفین کا مسئلہ درپیش نہیں ہوا ہوگا۔راحت اندوری نے ایسے ہی کسی موقعہ کیلئے لکھا تھا :
؎دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تو نے مجھے زمیندار کر دیا