شہباز شریف کی حکومت کی مدت ختم ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا جبکہ ہمارے موجودہ آرمی چیف کا اپنے عہدے پر تعیناتی کا ابھی پہلا سال چل رہا ہے ۔اس سال کے آخر میں انتخابات ہونا طے ہیں ۔ایسے میں سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو موجودہ حکومت بہت سے مشکل فیصلے کیے جارہی ہے ۔ان فیصلوں کا اثر اتحادی جماعتوں پر بھی ہوگا لیکن مسلم لیگ نون وزیر اعظم شہباز شریف کی وساطت سے کیے گئے فیصلوں اور معاہدوں کے لیے عوام کے سامنے بطور خاص جواب دہ ہوگی۔وزیر اعظم پاکستان اور ان کے وزرا قوم کو خوشخبری سناتے ہیں کہ ان کی کوششوں سے آئی ایم ایف سے قرض کی پہلی قسط مل چکی ہے۔ساتھ ہی یہ عندیہ بھی دیا جارہا ہے کہ ایسی کوشش کی جائے گی کہ پاکستا ن کو مستقبل میں قرض سے نجات مل جائے۔حکومت کے مشکل فیصلوں کا اثر براہ راست عوام کو بھگتنا ہے اور ہر طرف مہنگائی کا شور ہے ۔اس مہنگائی میں انتظامی افسروں کی سستی،ملی بھگت اور جیب گرم کا بھی حصہ ہے ۔اگر پرائس کنٹرول کرنے والوں پہ سختی کی جائے تو مہنگائی کی شرع پہ قابو پایا جاسکتا ہے۔اس کے ساتھ پچھلے کچھ دنوں سے وزیر اعظم شہباز شریف اور فوج کے ساتھ معاہدہ بھی خبروں کی زینت ہے جس میں ملک بھر میں بنجر اور غیر آباد زمین کو قابل کاشت بنانے میں فوج تعاون کرے گی ۔اللہ کرے وزیر اعظم کی کوششیں کامیاب ہوں اورآنے والے وقت میں پاکستانی قوم کو ضرورت زندگی معیاری اور ارزاں نرخوں پر ملنی شروع ہوجائیں ۔عام لوگوں کا خیال ہے کہ اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہیں تو انہیں کچھ ایسے کام ضرور کرنے چاہئیں جو پہلی حکومتیں کسی وجہ سے نہ کرسکیں۔پچھلے کئی سالوں سے ملک کو آٹھ نو مہینے توپانی کی کمی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے اور برسات کے دو تین مہینے ملک کا بہت بڑا حصہ پانی میں ڈوب جاتا ہے توکیا ہی اچھا ہو کہ وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف فوج کے ساتھ کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں چھوٹے بڑے بہت سے ڈیم بنانے کا بھی معاہدہ کرتے جائیں۔پھر پانی کے بہتر استعمال سے ملک بھر میں فصلوں کی بہتر پیداوار کے لیے منصوبہ بندی کی جائے ۔ایک منصوبہ تو یہ بھی شروع کیا جاسکتا ہے کہ گائوں ،دیہات اور قصبوں کے ساتھ خالی پڑی زمین میں پَھل دار،پُھل دار،سایہ دار اور ماحول دوست درخت لگوائے جائیں۔ اس نقطے پر بھی غور ضروری ہے کہ پاکستان میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بنا ’ہنر‘سیکھے تعلیمی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں ۔جبکہ دنیا میں ہنر مند افراد کو نہ صرف ترجیعی بنیادوں پر ملازمت ملتی ہے بلکہ ایسے لوگ آگے چل کے اپنا کاروبار شروع کرکے ملکی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں تو ایک معاہدہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ ملک بھر میں ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ بنائے جائیں اور پھر میٹرک اور ایف اے، ایف ایس سی کے بعد پچاس فیصد طلبا و طالبات کو ٹیکنیکل تعلیم کی طرف راغب کیا جائے ۔یہاں یہ نقطہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ہر سال نمبروں کی دوڑ میں آگے رہنے والی طالبات اکثریت میں شادی کے بعد نہ نوکری کرتی ہیں اور نہ کوئی کاروبار۔اس لیے اعلی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو پابند کیا جانا چاہیے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کم از کم پانچ سے سات سال وہ ملازمت یا اپنا کاروبار کریں گی۔پنجاب ،سندھ،بلوچستان،کے پی کے کے پسماندہ سمجھے جانے والے علاقوں نئے صنعتی شہر آباد کیے جائیں۔جہاں مقامی نوجوانوں کو ترجیحی بنیاد پر ملازمت دی جائے۔کرکٹ کے بعد ہاکی، فٹ بال،والی بال،اور دوسری کھیلوں میں نوجوانوں کی دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کام کیا جائے۔پورے ملک میں حکومتی عمل داری میں پبلک ٹرانسپورٹ سروس کا اجرا ء کیا جائے۔جس سے قومی خزانے کو روزانہ کروڑوں روپے ملنے لگیں گے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے ۔حکومت کوئی بھی ہو اگر بہتر حکمت عملی سے آبادی میں اضافے کو نہ روکا گیا توآنے والے چند سال بعد ہر تدبیر کے بعد باوجود پاکستان غذائی قلت کا شکار ہوسکتا ہے ۔بڑھتی آبادی سے بازار،مارکیٹیں، پلازے اور ہاوسسنگ سوسئاٹیز بن رہی ہیں جن کی وجہ سے قابل کاشت زمین کم ہو رہی ہے۔ کبھی آبادی دنیا میں قوت و طاقت اور معاشی و سیاسی استحکام کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی لیکن آج بڑھتی ہوئی آبادی کو خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اور پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہر سال آبادی میں ریکارڈ اضافہ ہورہا ہے۔
یورپی ممالک نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا اور آج وہاں وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل ہم سے کہیں بہتر نظر آتا ہے ۔دنیا میں جن ملکوں نے بھی ترقی کی ہے اس کی وجہ وہاں کے لوگوں نے پانچ سال کی بجائے پچاس سال اور سو سال کو سامنے رکھتے ہوئے پالیساں بنانے کا عمل شروع کیا ہے ۔ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم ,صحت اور ٹرانسپورٹ کے جدید نظام کو دیکھیں اور پھر اپنی بد حالی کو دیکھیں تو حقیقت سمجھ آجاتی ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں سے بھول ہوئی ہے ۔حکومت ، اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ساتھ بٹھا کے آبادی کنٹرول کرنے کا کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے جو ہر حال میں جاری رہے ۔ان مشکل فیصلوں سے پاکستان کا آنے والا کل ضرور روشن ہوگا۔