جنگ جو ہماری علیحدگی کا باعث بنی ( 2)

میں نے اپنے پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ ہمارا کورس جنگ کے دوران پاکستان ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوا۔ میری پوسٹنگ مشرقی پاکستان بطور سنسر آفیسر ہوگئی ہمارا دفتر جنرل پوسٹ آفس تھا اور ہمارا کام تمام آنے جانے والی ڈاک کو چیک کرنا تھا مباداکہ کوئی چیز ملک کی سلامتی کے خلاف ہو۔ جس سے مجھے وہاں کے اصل حالات جاننے کا موقعہ ملا ۔ یہ لوگ اِس جنگ کے سخت مخالف تھے ۔ ایک پرائیویٹ دعوت میں ایک پروفیسر صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے اِس جنگ کو بے مقصد ،ملک کو دو لخت کرنے اور فوج کی تذلیل کرانے کی سازش قرار دیا۔ یہ سب کچھ سُن کر میں نہ صرف بہت پریشان ہوا بلکہ ڈپریشن میں چلا گیا۔مزید کچھ سننے کی تاب نہ تھی۔لہٰذا اُٹھ کر میس میں آگیا۔
 وہ رات میں سو نہ سکا۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا کہ یہ جنگ پاکستان اور پاکستانی فوج پر تھوپی گئی ہے۔ اس سے پاکستان بین الاقوامی طور پر تنہا ہو جائیگا۔ پاکستان دولخت ہو جائے گا۔ وزیر خارجہ اور اسکی ٹیم۔ یہ تمام خیالات ہتھوڑے کی طرح میرے ذہن پر پڑتے رہے۔ مجھے اس چیز پر بھی غصہ تھا کہ مجھ سے تلخ باتیں برداشت کیوں نہ ہوسکیں۔ ہو سکتا ہے پروفیسر صاحب سچ کہہ رہے ہوں۔ ہم میں ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ صبح جب میں دفتر گیا تو میری حالت کوئی اتنی اچھی نہ تھی۔ مجھے راہنمائی کی سخت ضرورت تھی۔ میں بڑی مشکل سے آدھا گھنٹہ دفتر میں گزار سکا۔ خطوط کے ڈھیر سے ایک خط اُٹھایا۔ سنسر کی غرض سے اسے کھولا۔ یہ خط ایک نوجوان بنگالی لڑکی کا تھا جسکی چند ماہ پہلے ہی شادی ہوئی تھی اور اسکا خاوند سیالکوٹ میں ایک سویلین آفیسر تھا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر سخت جنگ کی خبریں عام تھیں اور جنگ بندی ہونے کے باوجوداکادُکا جھڑپیں ہوتی رہتیں۔ خط بنگالی زبان میں تھا لہٰذا میں نے اپنے مترجم کو بلا کر کہا پڑھو اور مجھے سناؤ۔ مترجم پڑھتے پڑھتے اچانک رُک گیا اور خط کو بند کرنے لگا۔ مجھے شک گذرا کہ یہ شخص کچھ نہ کچھ مجھ سے چھپا رہا ہے۔ لہٰذا میں نے اُسے مجبور کیا کہ مجھے سب کچھ بتائے ورنہ میں دوسرا مترجم بلا کر اسکا ترجمہ کراؤ نگا تو اُس شخص نے معذرت کے ساتھ بتایا کہ باقی توسب ٹھیک ہے کہ گھر یلو حالات لکھے ہیں لیکن آخر میں لکھا ہے’’ ڈیئر - - خدا کرے آپ خیریت سے اُس جہنم سے واپس آجائیں اور خدا ہمارے ان سیاسی لیڈروں کو عقل دے کہ ایسی بے مقصد جنگوں سے غریب عوام کو نہ مروائیں۔‘‘ فقط تمہاری۔
 اس خط نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اوّل یہ کہ مترجم نے جو میرا ہی سٹاف ممبر تھا مجھ سے اس خط کا اہم حصہ کیوں چھپانے کی کوشش کی؟ کیا یہ لوگ ذہنی طور پر ہمیں اپنے ساتھ نہیں سمجھتے؟ پھر نوجوان عورت کی سوچ، بے مقصد جنگ، غریب عوام کو مروانا ،رات والی پروفیسر صاحب کی باتیں۔ یہ آخر سب کچھ کیا ہے؟ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا تھا کہ مشرقی پاکستان میں کوئی زیر زمین مغربی پاکستان کے خلاف بھی تحریک چل رہی تھی اور خدانخواستہ اگر یہ سچ ہے تو دشمن ہماری سا  لمیت پر میدان جنگ میں ہی نہیں بلکہ ہماری اپنی سرزمین پربھی کاری ضرب لگارہا تھا اور مرحوم ذوالفقار علی بھٹو چونکہ میرا پسندیدہ لیڈر تھا اس لئے میں اُس کے خلاف کچھ بھی سوچنے پر آمادہ نہ تھا ۔لیکن بدقسمتی سے جس طرف سے بھی کڑیاں ملا تا وہ اُسی شخصیت پر آکر رک جاتیں۔ اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہو گیا۔ میں اُٹھا اور ساتھ والے دفتر میں اپنے باس کے پاس چلا گیا۔ یہ ایک سینئر اور پرانے کپتان صاحب تھے۔ ان کا تعلق مغربی پاکستان میں میرے اپنے علاقے سے تھا۔ میں نے انہیں سارا قصہ بیان کیا جو انہوں نے غور سے سنا۔ جب میں سنا چکا تو انہوں نے پوچھا ’’بس یا کچھ مزید بھی باقی ہے‘‘’’ بس یہی کچھ ہے۔ ‘‘اب میں انکی رائے سننے کے لئے ہمہ تن گوش تھا۔ انہوں نے اپنی عینک اُتار کر فائل پر رکھی۔ پھر اٹھائی صاف کر کے پہن لی۔ چند سیکنڈ کے لئے مجھے غور سے دیکھا۔ میری آنکھیں سرخ تھیں۔ چہرہ اُترا ہوا تھا۔ اب کپتان صاحب کے چہرے پر سخت غصہ آیا اور غصے سے مجھے ڈانٹا’’ یو بلڈی فول‘‘ اسی لئے فوج میں کہا جاتا ہے کہ سیکنڈ لفٹیننٹ کو صرف نظر آنا چاہیے، سنائی نہیں دینا چاہیے۔ خبر دار آئندہ اگر کوئی ایسی بات سوچی یا زبان سے نکالی تو میں تمہارے خلاف سخت تادیبی کارروائی کرونگا۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے رُکے میری طرف دیکھا اور پھر سختی سے بولے:
''YOU FOOL NOW STAND UP AND GET LOST. SEAL YOUR BRAIN AND SEAL YOUR LIPS" 
  مزید نہ مجھے کچھ پوچھنے کی جرأت ہوئی نہ انہوں نے کچھ کہا۔ میں اُٹھا اور اپنے دفتر آ گیا۔ پھر جتنا عرصہ میں وہاں رہا اس موضوع پر کبھی زبان نہ کھولی۔1971 کی جنگ کے بعدا یکدن میں اُسی کپتان صاحب کے گھر بیٹھا تھا جواب لفٹیننٹ کرنل تھے اور میں کپتان ۔اب زمانے اور خصوصاً ًفوج کی اونچ نیچ سے پوری طرح باخبر تھا تو کرنل صاحب نے میری طرف دیکھ کر پوچھا ’’تمہیں وہ ڈھا کہ والا واقعہ یاد ہے ‘‘’’بالکل‘‘ میں نے جواب دیا۔ کرنل صاحب گویا ہوئے '' تم نے جو کچھ اُس دن کہا یا سوچا تھا بالکل ٹھیک تھا لیکن اگر یہ بات کسی اور کے کانوں تک چلی جاتی تو شاید تم اریسٹ ہو جاتے اور آج فوج میں نہ ہوتے‘‘۔ میں آج بھی جب اس واقعہ کے متعلق سوچتا ہوں تو انکی ڈانٹ ڈپٹ بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے۔ جوش ِجوانی اور نا تجربہ کاری میں مجھ سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہوسکتی تھی۔ (جاری ہے۔)

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...