1977ء کے عام انتخابات میں رفیق احمدشیخ ایک مرتبہ پھر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے مگر غیر ملکی اور ضیاء ٹولے کی سازش کی وجہ سے پہلے بھٹو کیخلاف الیکشن لڑنے کیلئے9 جماعتوں پر مشتمل قومی اتحاد بنایاگیا اور امیدواروں اور سیاسی گروہوں کو بھاری رقوم تقسیم کی گئیں۔ اس انتخاب میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 200 میں 155 سیٹیں جیت لیں جبکہ قومی اتحاد کو 36 نشستیں حاصل ہوئیں دھاندلی کے نام پر تحریک چلائی گئی جس میں عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے نفاذ نظام مصطفی کے نام کا استعمال کیا جانے لگا۔ تحریک کو بھڑکایا گیا اور قومی اور نجی املاک کو نذر آتش کیا گیا۔ میکلوڈ روڈ پر پیلی بلڈنگ کو نذرِ آتش کیا گیا جس میں چار افراد ہلاک ہوگئے۔ ہال روڈ کے کونے پر اسٹینڈرڈ بینک کو آگ لگائی گئی۔ ریگل چوک کے کارنر پر آغا امیر حسین کے کلاسک بک سٹال کو جلا کر خاک کر دیا گیا۔ کوئنز روڈ پر کئی بلڈنگوں کو آگ لگائی گئی۔
لکشمی چوک میں چوہدری عید محمد کے رتن سینما کو آگ کی نذر کر دیا گیا۔ اس تحریک کے شروع ہونے سے قبل لاہور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنمائوں نے ایک اجلاس منعقد کیا اور فیصلہ کیا کہ سفید ہاتھی کے ڈالر پر چلنے والی تحریک کا مقابلہ عوام کی مدد سے کیا جائے۔ اس اجلاس میں رفیق احمد شیخ، عارف اقبال بھٹی، چوہدری نذیر، شیخ اخلاق حسین، خالد بٹ، حسن ایوب نقوی، عابد جمیل باجوہ، شفیق پانوں والا، ناظم حسین شاہ، آغا امین حسین (موچی دروازہ)، شیخ فیاض الرحمن، مرتضیٰ جعفری، غلام صادق بٹ اور بہت سے لوگ شریک ہوئے تھے۔ یاد رہے عام انتخابات کے بعد بھٹو شہید نے محسوس کرلیا تھا کہ عالمی طاقتیں اْن کا تختہ اْن کی پالیسیوں کے باعث الٹنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے پیپلز کے وفادار ترین لوگوں کو آگے لانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں رفیق احمد شیخ کو فوری طور پر وزیر قانون بنایا اور ساتھ ہی لاہور پی پی پی کا صدر نامزد کر دیا۔
بھٹو نے ایک ماہ میں دیکھ لیا کہ رفیق احمد شیخ پارٹی سے وفاداری نبھانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ اْن کو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر نامزد کر دیا۔ 9 اپریل کو پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی۔ رفیق احمد شیخ نے اس موقع پر فروٹ اور سبزی منڈی، انارکلی بازار اور چیمبر لین روڈ کی مارکیٹیں کھلوادیں جس پر مظاہرین نے دوکانداروں اور آڑہتیوں پر شدید تشدد کیا اس موقع پر کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ رفیق احمد شیخ، عارف اقبال بھٹی، ناظم حسین شاہ، جہانگیر بدر، رانا شوکت محمود، منصور ملک کے گھروں اور گاڑیوں پر حملے کیے گئے۔ اس دوران بھٹو شہید کی حکومت اور قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات بھی شروع ہوئے جسے جنرل ضیاء کے پس پردہ ہاتھوں نے ناکام بنانے کی کوشش کی۔ بھٹو نے مذاکرات نے میز پر اپوزیشن کو دوبارہ انتخابات میں جانے کی پیشکش کر دی۔ یوں جنرل ضیاء ، اختر عبدالرحمن ، فیض علی چشتی ٹولہ 5 جولائی 1977 کو عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوگیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے بیگم نصرت بھٹو کو ہدایت کی کہ کچھ بھی ہو جائے رفیق احمد شیخ پر مکمل اعتماد کرنا۔ اور وہ 14 جولائی 2007 ء زندگی کے آخری دن تک بھٹو کی پارٹی سے وفا نبھاتے رہے۔ وہ ضیاء آمریت کے گیارہ سالوں میں تقریباً چھ سال قید رہے۔ وہ جب بھی رہا ہوتے پارٹی کو منظم اور متحرک کرتے۔ اسی لیے بھٹو کے تختہ دار پر چڑھنے کے چند ماہ بعد ضیاء ٹولے نے عوامی رائے عامہ کو جاننے کیلئے بلدیاتی انتخابات کرائے۔ صدر پنجاب پیپلز پارٹی نے کارکنوں سے اس طرح کا مضبوط رابطہ رکھا ہوا تھا کہ اٹک سے صادق آباد تک (اس وقت تنظیمی طور پر پورے صوبے میں پارٹی کا ایک ہی ڈھانچہ تھاجو کہ اب سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب ہوگیا ہے) عوام دوست کے نام پر امیدواروں نے جماعت اسلامی سمیت مارشل لاء کے حامیوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ صرف لاہور میں ہی 100 براہِ راست نشستوں پر انتخاب میں عوام دوست 84 کے قریب کامیاب ہوئے۔ جن میں ڈاکٹر ضیاء اللہ بنگش، اسلم گل، ضیاء بخت بٹ، چوہدری صلاح الدین، غلام صادق بٹ، چوہدری یونس، یعقوب شاکر، چوہدری بشیر احمد چونا بھی شامل تھے۔ میاں شجاع الرحمن کو دھونس دھاندلی اور بندوق کے زور پر 24 ووٹ دلا کر لاہور کا میئر بنا دیا۔ سیاسی طور پر بے انتہا بہادر ہونے کے باوجود رفیق احمد شیخ نجی زندگی میں بہت سادگی اختیار کرتے تھے۔ ہاتھ میں پلاسٹک کی ٹوکری پکڑ کر سودا خریدنے صفانوالہ چوک اور دوسری جانب پرانی انارکلی پیدل جاتے، راستے میں سینکڑوں احباب سے ملاقات کرتے، کہیں کسی کھوکھے پر بیٹھ کر چائے بھی پیتے، اْن کی سبز رنگ کی مزدہ گاڑی LEO-20 جو 1974 ماڈل بہت مشہور تھی۔ مجھے اْس کو ہزاروں دفعہ دھکا لگانے کا شرف حاصل ہے۔ پارٹی کے دیگر خوشحال لیڈر جان کی پروا نہیں کرتے تھے مگر اپنی مہنگی گاڑی کو مارشل لاء کے خلاف سرگرمیوں سے دور رکھتے تھے۔ مارشل لاء کے دوران پیپلز پارٹی کے چار بڑے ڈیرے لاہور میں تھے۔ شیخ رفیق احمد کا گھر، رانا شوکت محمود کا گھر بڑا اور وسائل ہونے کے باعث کارکنوں کے قیام کا بھی بندوبست تھا۔ عارف اقبال حسین بھٹی شہید اور پیر سید ناظم حسین شاہ کا پرانی انارکلی کا ڈیرہ، مزنگ کی کنک منڈی میں بائوشفیق پانوں والے کی دوکان پر بھٹو کی قد آدم تصویر کوئی بھی مائی کا لال اتروانے میں ناکام رہا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج پارٹی لیڈر بھی اپنے گھروں اور کاروباری مراکز پر پارٹی کا جھنڈا لگانے سے شرماتے ہیں۔ یہ بات میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ رفیق احمد شیخ کی پیپلز پارٹی کی پنجاب کی صدارت کے دوران 1978 ء سے 1985ء تک بہت سے سیاسی کام اور آفس کی سرگرمیاں میں ہی مینج کرتا تھا۔ اور 1985ء سے 1988ء تک اْن کے سنٹرل انفارمیشن کی مکمل مدد میں شامل تھا۔ پھر دسمبر 1988ء سے 1997 تک سیکرٹری جنرل کے آفس کا تمام تر سیاسی اور انتظامی کام میرے ذمہ تھا۔ مگر کبھی کسی سے کسی طرح بھی ایک روپیہ تنخواہ تو دور کی بات، تحفے تحائف کو کبھی قریب سے نہیں گزرنے دیتا تھا۔ لاہور میں تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، اسلام آباد آنا جانا ہوتا تو بھائیوں سے کرایہ مانگ کر جاتا۔ 1988ء میں رفیق احمد شیخ کے سیکرٹری جنرل بننے پر میری ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ شیخ صاحب کی تیار کردہ قراردادیں، منٹس آف میٹنگ، ایجنڈا اور 1988ء اور 1993ء کے دوران حکومت پارٹی پالیسیوں پر حکومتی اداروں کی کارکردگی پر عمل درآمد کی رپورٹ حاصل کر کے اْسے بھی کاغذات پر منتقل کرنا میری ذمہ داری تھی۔ کوئی ایک ایک لفظ بھی کسی شخص کو پتہ نہ لگنے دینے والا اعتماد صرف مجھ میں تھا۔ رفیق احمد شیخ کوضیاء حکومت کی طرف سے دو مرتبہ اعلیٰ عہدے کی پیشکش ہوئی انہوں نے اس موقع پر اور بعد میں مجھے کہا کہ کسی کو ایسی جرات کیسے ہوگئی کہ مجھ سے ایسی بات کرے۔ اْن کے گھر میں دسترخوان لگنے کا کوئی رواج نہ تھا۔ کیونکہ وہ اکثر جیلوں میں ہوتے، اْن کی بیگم ہسپتال میں، اْن کے دونوں بیٹوں میں سے کوئی نہ کوئی جیل اور شاہی قلعہ میں ہوتا۔ بیٹی نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ڈاکٹر حمیرہ نے KE سے میڈیکل کیا۔ سرٹیفیکیٹ لینے کے موقع پر بھرے مجمع میں کہہ دیا کہ مارشل لائکے نامزد گورنر کے قریب جانا بھی پسند نہیں کرتی۔ میں نے اسلام آباد میں رفیق احمد شیخ کی نگرانی میں جس آفس کی ہما پلازہ میلوڈی مارکیٹ میں بنیاد رکھی جو 1993 میں ایمبیسی روڈ پر منتقل ہوا۔ اْسے بھی رفیق احمد شیخ کی ہدایت پر منظم اور ترتیب دے کر چلایا۔ کسی فیلڈ میں پیشہ ور ماہر ہونا غنیمت ہوتا ہے۔ مگر سیاست پیشہ نہیں عبادت ہے، یہی میں نے رفیق احمد شیخ سے سیکھا۔
آج رفیق احمد شیخ کی سولہویں برسی ہے۔ امید ہے پارٹی ان جیسے مخلص اور مستعد عہدیداروں کا ہی انتخاب کرے گی۔(ختم شد)