احادیث میں مطلقاً رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم ہے یعنی تما م رشتہ دار وں سے خواہ وہ قریبی ہوں یا دور کے حسن سلوک کا برتائو کیا جائے۔ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ درجات مختلف ہیں اور ان میں والدین کا حق تو بہت ہی اہم ہے والدین کی تعظیم و توقیر عزت و حرمت کا خیال رکھنا ہر صورت ضروری ہے ۔
ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ وہ خوار ہوا وہ خوار ہو اوہ خوار ہوا پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ
کون خوار ہوا تو فرمایا کہ جس نے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا پھر ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی ‘‘۔ ایک دفعہ ایک صحابی نے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والدین زندہ ہیں عرض کی جی ہاں فرمایاتو پھر خدمت کا فریضہ جہاد ادا کرو ۔ایک اور احادیث میں ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ کی بار گاہ میں عرض کی کہ اللہ تعالی کو ہمارے تمام کاموں میں سے کون سا کام سب سے زیادہ پسند ہے فرمایا وقت پر نماز پڑھنا عرض کی پھر کون سا فرمایا والدین کے ساتھ نیکی کرنا عرض کی پھر کون سا فرمایا راہ خدا میں مشقت اٹھانا ۔
والدین کی اطاعت کے ثواب کے متعلق ایک مرتبہ حبیب خدا نے ایک واقعہ سنایا کہ بنی اسرائیل میں تین شخص تھے وہ سفر کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں بارش شروع ہو گئی یہ تینوں ایک غار میں جا چھپے ۔اللہ کی قدرت غار کے منہ پر ایک پتھر گرا اور منہ بند ہو گیا اب موت ان کے سامنے تھی اس وقت ان تینوں نے بڑے خشوع خضوع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا کی ہر ایک نے اپنی ایک نیکی کا واسطہ دے کر دعا کی ایک نے کہا الٰہی تو جانتا ہے کہ میرے والدین بوڑھے ہیں میرے بچے چھوٹے ہیں میں بکریاں چراتا ہو ں اور جب شام کو بکریاں گھر لاتا ہو تو دودھ دوھ کر سب سے پہلے والدین کی خدمت میں لاتا ہوں جب وہ پی چکے ہوتے ہیں تب میں اپنے بچوں کو پلاتا ہوں ۔ ایک دن دیر سے گھر آیا تو والدین سو چکے تھے تو میں دودھ کا پیالہ لیے رات بھر کھڑا رہا وہ آرام کرتے رہے خداوند یہ کام میں نے فقط تیری رضا کے لیے کیا تھا تو اس غار کے منہ سے پتھر ہٹا دے یہ کہنا تھا کہ خود بہ خود حرکت ہوئی اور غار کے منہ سے سرک گیا اس کے بعد باقی دونوں مسافروں نے بھی اپنے نیک کاموں کا وسیلہ بنا کر دعا کی تو غار کا دروازہ کھل گیا۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ‘‘ ۔ ’’ اللہ پاک کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے ‘‘۔