گزشتہ ہفتے کا آخری کالم میں نے چیک ناول نگار میلان کندیرا کی موت کے بعد تعزیتی انداز میں لکھا تھا۔ لکھتے ہوئے یہ فکر لاحق رہی کہ شاید قارئین کی اکثریت اسے نظرانداز کرنے کو ترجیح دے گی۔ کندیرا کمیونسٹ نظام سے اُکتا کر 1975ءمیں پیرس چلا گیا تھا۔جلاوطنی میں کئی برس گزارنے کے بعد اس کے لکھے ناولوں کو 1980ءکی دہائی میں بہت پذیرائی ملی تھی۔ غالباََ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سرد جنگ کی انتہائی پرتشدد دہائی تھی۔ سوویت افواج افغانستان میں درآئی تھیں۔ ان کے خلاف ”مہذب اور آزاد“ دنیا یکجا ہوگئی۔ پاکستان کے جنرل ضیاءکی وساطت سے ”افغان مجاہدین“ کی سرپرستی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سی آئی اے دیگر منصوبوں کے علاوہ کمیونسٹ نظام کو بے نقاب کرنے کے لئے چند لکھاریوں اور فلم سازوں کو پروموٹ کرنابھی شروع ہوگئی۔ میلان کندیرامگر ”پروموٹڈ“ ناول نگار نہیں تھا۔اس نے جو بھی لکھا نہایت خلوص سے ذاتی تجربات کی اذیتوں اور روزمرہّ زندگی کے بھرپور مشاہدے کی بدولت لکھا۔ اس کا اسلوب بھی نہایت انوکھا تھا۔ ناول کا آغاز کرتا تو محسوس ہوتا کہ کوئی طویل مضمون لکھنے والا ہے۔اپنے ابتدائیے کو لیکن فلمی اور ڈرامائی انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے نہایت مہارت سے ایک مسحورکن دنیا میں لے جاتا۔
اس کا اسلوب اور تخلیقی ذہن مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔ میلان کندیرا کے بارے میں لکھا کالم چھپنے کے بعد اس کی پذیرائی نے مجھے دو دنوں تک کامل اگرچہ خوش گوار حیرت میں مبتلا رکھا۔مجھ جیسا بے ہنر دیہاڑی دار اپنے کالم کے لئے سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ شیئرز اور لائیکس کی ہوس میں یقینا مبتلا ہوچکا ہے۔ اپنی کسی تحریر کو توقع سے زیادہ پذیرائی نصیب ہوجائے تو سوچنے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ معمول سے زیادہ پسند کئے کالم میں وہ کونسا ”چورن“ تھا جو لوگوں کو بھاگیا۔ اس کا ”نسخہ“ دریافت ہوجائے تو مزید کالم اس کے مطابق ہی لکھوں۔
اس تناظر میں خود غرضانہ غور کرتے ہوئے اس کالم کو تین سے زیادہ بار پڑھا۔ مجھے گماں ہے کہ میں نے جس انداز میں میلان کندیرا کی سوچ کو بیان کیا تھا شاید وہ قارئین کو پسند آیا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے میں بارہا کمیونسٹ اشرافیہ کی اس احمقانہ کاوش کی جانب توجہ دلاتا رہا جو ”عوام کی بھلائی“ کے لئے سوچنے کا فریضہ اپنے لئے مختص کرلیتی ہے۔ اس کے بعد ایک ”نظریہ“ ایجاد ہوتا ہے جو مصر رہتا ہے کہ وہ اپنے ملک کو ”جنت ارضی “ میں بدل رہا ہے۔عوام کو اس کے فراہم کردہ ”استحکام“ اور روزمرہّ زندگی کے حوالے سے میسر نسبتاََ ”یقینی“ دکھتے حالات سے مطمئن محسوس کرنا چاہیے۔ سرجھکائے اپنے کام سے کام رکھیں اور بیوی بچوں کے ساتھ رجائیت سے مالا مال زندگی گزاریں۔
1950ءسے وطن عزیز کی حکمران اشرافیہ بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ ”دیدہ ور“ کی منتظر قوم کو بالآخر 1958میں ایوب خان مل گئے۔انہوں نے دس برس تک کامل اختیارات کے ساتھ راج کیا۔ان کے دور کو الطاف گوہر جیسے سرکاری نابغوں نے ”عشرہ ترقی“ قرار دیا اور اس کا جشن منانے کی تیاری شروع کردی۔ عوام کی اکثریت مگر اس ”عشرہ ترقی“ سے نڈھال ہوچکی تھی۔ سڑکوں پر نکل آئی۔ وہ تو فارغ ہوگئے۔ ”دیدہ وروں“ سے مگر ہمارے لوگوں کے دل نہیں بھرے۔ رواں صدی سے قبل مذکورہ ”دیدہ ور“ فوجی وردی بھی پہنے ہوئے تھے۔ 1996ءسے مگر بتدریج کرکٹ سے کرشمہ ساز ہوئے عمران خان ہماری نوجوان نسل کے چہیتے بننا شروع ہوگئے۔ جو ادارے ”دیدہ ور“ پیدا کرنے پر اجارہ محسوس کیا کرتے تھے”کرشمہ ساز“ کو ”اپنا“ بنانے کو تیار ہوگئے۔ 2018ءکے بعد تاہم انہیں ”مزا نہیں آیا“ والے مقام تک پہنچنے میں تین برس لگ گئے۔
مجھے شبہ ہے کہ میلان کندیرا کے بارے میں لکھتے ہوئے اس کی شخصیت کے جن پہلوﺅں کو میں نے اجاگر کیا تھا ان پر توجہ دینے کے بجائے قارئین کی اکثریت کو یہ سوچ زیادہ بہتر لگی کہ اشرافیہ کے جبر سے ”جنت ارضی“ تشکیل نہیں دی جاسکتی۔عوام کی اجتماعی بصیرت ہی بالآخر کسی ملک یا معاشرے کو خوشگوار بناسکتی ہے۔مذکورہ تناظر میں شاید قارئین کو ”دیدہ وروں“ کی بدولت ہمارے ملک پر مسلط کئے وہ تجربات بھی یاد آگئے جو ایوب خان کے دس برسوں میں ملک کو ”عائلی قوانین“ اور فیملی پلاننگ کے ذریعے ”جدید“ بنانے کے بعد جولائی 1977ءسے اگست 1988ءتک ”اصل اسلام“ کی راہ پر چلانے کو بے چین تھے۔”نفاذ اسلام“ سے جی بھرگیا تو اکتوبر1999ءسے 2008ءکے آغاز تک پرویز مشرف کی قیادت میں ہمیں ”روشن خیال“ بنانے کا تجربہ شروع ہوگیا۔ عمران خان کو ”دیدہ وری“ آﺅٹ سورس کرتے ہوئے جو حاصل کرنا مقصود تھا میں اسے مگر آج تک سمجھ نہیں پایا۔
میلان کندیرا کی بابت لکھے کالم کو غور سے پڑھتے ہوئے مجھے بطور پاکستانی اس امر کی بابت بھی تھوڑا فخر محسوس ہوا کہ ہمارے عوام ”دیدہ وروں“ اور ”جنت ارضی“ تشکیل دینے والا نظام زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرتے۔ ادویات کے دھندے کے حوالے سے بات کروں تو ہمارے ہاں آمرانہ نظام کی ”شیلف لائن“ دس برس سے زیادہ کھینچی ہی نہیں جاسکتی۔ مسئلہ مگر یہ بھی ہے کہ ایک ”دیدہ ور“ سے جند چھڑالینے کے بعد ہم ایک اور ”دیدہ ور“ سے توقعات باندھنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ یوں دائروں میں ہوتا ایک سفر ہے جو 1950ءکی دہائی سے مسلسل جاری ہے۔اس سے نجات کی صورت کم از کم مجھے تو ان دنوں ہرگز نظر نہیں آرہی۔ شاید عمر کے آخری حصے میں تھک کر امید کھوبیٹھا ہوں۔ ہمارے ہاں مگر حبیب جالب جیسے دیوانے بھی پیدا نہیں ہورہے۔ استاد دامن کی اختیار کردہ بے نیازی بھی عنقا ہوچکی ہے۔ منیر نیازی کی طرح کوئی اپنے کسی شعر یا نظم سے چونکاتا بھی نہیں ہے۔ٹک ٹاک اور یوٹیوب کازمانہ ہے۔ اندھی نفرت وعقیدت کو بڑھانے کے علاوہ کسی کام نہیں آرہا۔