شہدائے اسلام جن پہ شہادت بھی فخر کرے-----

اللہ سبحانہ و تعالی کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام "الشھید" ہے۔ جس کے معنی ہیں حاضر ناظر، جو ہر چیز کو دیکھتا ہے اور جو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا یہ نام خوبصورتی کے ساتھ اللہ کے مومنین کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ "ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے"۔

ہم سب اس قرآنی آیت سے بخوبی واقف ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناطے موت اور پھر موت کے بعد جی اٹھنے پر یقین کرنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آدمی اسی طرح مرتا ہے جس طرح اس نے جیا ہو۔ اس دنیا میں ایک خوبصورت انجام کسی کی خوبصورت موت کی سند ہے۔ اور مرنے کی بہترین حالت "شہید" ہو کر مرنا ہے۔ جیسے ہی اسلامی سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے ہم سب کے ذہنوں اور دلوں میں اہل بیت اور شہداءکربلا کے واقعات ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔ لیکن آج ہم اہل بیت کے ساتھ ساتھ ان تمام شہداءاسلام کو خراج تحسین پیش کریں گے جنہوں نے اپنی بہادری اور دلیری سے شہادت کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دینِ اسلام پھیلانے میں اپنے رب العزت کی رضا حاصل کی۔
لفظ شہادت کا مطلب ہے "گواہ" لیکن اسلام میں جب شہادت کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ میت ہے جو اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر ایمان کی کامل حالت کے ساتھ فوت ہوئی ہو۔ قرآن میں آیا ہے: ”جو لوگ راہِ خدا میں مارے جائیں ا±ن سے یہ مت کہو کہ وہ مر گئے“۔ نہیں! وہ زندہ ہیں لیکن تم بے خبر ہو۔“ (2:154) 
دینِ اسلام کی ابتدا ہی میں جب کامل ایمان کے ساتھ موت کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ پہلی شہیدِ اسلام حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے واقعہ کا ذکر آتا ہے۔ جنہوں نے مشرک جابر ترین مالک ابو جہل کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے بہتر اللہ رب العزت کے نام پر موت کو ترجیح دی اور اسلام کی پہلی شہید ہونے کا اعلی مرتبہ حاصل کیا۔ پھر ان کے شوہر حضرت یاسر رضہ اور ان کے بیٹے کو شہادت کا رتبہ ملا جو کہ اسلام کے پہلے تین شہید کہلائے۔
ہجرت کے بعد پہلی جنگ، جنگ بدر کہ چند شہداء کا ذکر آتا ہے اور پھر جنگ احد میں "سید الشہداء" حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے رتبہ کا ذکر جن کی بہادری اور دلیری سے قریش تھر تھر کانپ اٹھتے تھے اور انہی کے ساتھ ساتھ 70 صحابہ کرام کی شہادت جن کو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک یاد رکھا۔ جنگ احد کے ذکر میں وہ واحد صحابی جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حفاظت فرمائی جس کی بنیاد پہ ان کو جنت کی بشارت حاصل ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ واحد صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا جن کو "زندہ شہید" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے 70 گہرے زخم کھائے لیکن اللہ کی رحمت سے زندہ رہے حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ۔ 
پھر خندق اور خندق کے شہداءمیں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر کرتے ہیں کہ جن کی شہادت پہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا عرش ہل گیا ہے سعد کی شہادت پر۔
 پھر جنگ موتہ کہ وہ صحابی جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہ حیات طیبہ میں جنگ کی سخت ترین حالت میں کفار کے ہاتھوں شکست کھانے سے انکار کر دیا اور میدان نہیں چھوڑا بلکہ دین اسلام کی سربلندی کے لیے شہادت کو گلے لگانے کو ترجی دی۔ حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابی جنہوں نے شہادت کی منزل حاصل کیا۔ حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ کہ دونوں بازو کاٹ دیئے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں "ذوالجناحین" (تیز اڑنے والا جنت کی طرف) کا لقب دیا اور فرمایا کہ جنت میں وہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ اپنے دو پروں کے ساتھ اڑتے ہیں۔ سبحان اللہ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت، اسلامی سال کا پہلا دن پہلی محرم کی تاریخ شروع ہی شہادت سے ہوتی ہے، پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اور پھر شیرِ خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا ذکر ہر بچے اور ہر مسلمان کے دل میں محفوظ ہے۔ مزید آگے بڑھیں تو اہل بیت کی شہادت کا نظرانہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خاندان مبارک نے دین کی بقا کے لیے اپنے خونِ مبارک کو بہانے میں کوئی کسر نہ رہنے دی۔
شہدا کے ساتھ ساتھ یہاں ان عظیم ہستیوں کا ذکر کرنا چاہوں گی جو پیچھے رہ جانے والے شہیدوں کے لواحقین اور پیارے تھے جنہوں نے ان کی قربانیوں کو فخریہ طور پر تمغے کی طرح سنبھال کے رکھا اور ان کے قدر کرنے میں بہترین مثال قائم کی۔ 
سب سے پہلے تو خود ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا صبر و جرا¿ت جو کہ اسلام کی ابتدا سے ہی دنیا میں اعلی مثل ہے۔ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کے خاندان پر ابو جہل کی طرف سے ظلم و زیادتی ہوتی رہتی تھی، کوششوں کے باوجود مسلمانوں کو آزاد ہونے نہیں دیتے تھے تو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم گلی سے گزرتے ہوئے با آواز بلند فرمایا کرتے تھے کہ حوصلہ رکھو اس کا بدلہ جنت ہے۔ اپنی حیات طیبہ میں اپنے قریب ترین صحابیوں کو اللہ کی راہ میں جاتے ہوئے دیکھنا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنا اور ان کو یاد رکھنا اور اس پر صبر کرنا جس کے ذریعے ہمارے ایمان کی بہترین رہنمائی ہوئی۔ ہر امتی دن و رات درود و سلام بھیج کے اپنے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نظرانہ عقیدت پیش کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سبحان اللہ 
اس کے بعد میں ذکر کرنا چاہوں گی حضرت زینب بنت علی رضی اللہ تعالی عنہا کا جن کے والدِ محترم شہید، بھائی شہید اور بیٹے شہید اور صبر اور ایمان کا وہ عالم کہ ظالم و جابر حکمران کے سامنے جرت کو اپنایا اور اس کی حفاظت کرنا اپنا فرض کامل سمجھا۔ دین اسلام کی وہ واحد خاتون ہے جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 
پھر سلام پیش کرتے ہیں ہم ان صحابیہ کو جنہوں نے جنگ احد میں اپنے شوہر اپنے بیٹے اپنے بھائی کی شہید ہونے کی خبر سنی لیکن پھر بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خیر خبر حاصل کرنے کے لیے کسی غم کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا اور جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو باخیریت دیکھا تو تاریخ کے بہترین الفاظ ادا کیے جس کا مفہوم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کے بعد کوئی غم ، غم نہیں لگتا۔ سبحان اللہ۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں مرنے والے جنت میں خاص الخاص مقامات اور مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ وہ اسی دنیا میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے رزق پاتے ہیں اور زندہ ہیں۔ کہاں، کب اور کیسے احادیث کے ذریعے بہت کم معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اصل سکون واطمینان یہ ہے کہ ایک شہید بہت اچھی زندگی گزارتا ہے، وہ دنیا سے رخصت ہوتے وقت خوش ہوتے ہیں اور جنت کے پھل کھاتے ہیں اور جہاں چاہیں جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالی کے تخت کے نیچے فانوس میں رہتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شہید جنت کے دروازوں پر دریا کے کنارے محل میں رہتے ہیں اور ان کے لیے صبح و شام جنت سے رزق لایا جاتا ہے"- (احمد)
 "شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے جسموں میں رہتی ہیں اور ان کے گھونسلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عرش سے لٹکے فانوسوں میں ہوتے ہیں"- (ترمذی)
 "وہ جنت کے پھل جہاں سے چاہیں کھاتے ہیں اور پھر ان فانوسوں میں گھونسلاے میں رہتے ہیں۔ ایک بار ان کے رب نے ان پر ایک نظر ڈالی اور فرمایا: کیا تم کچھ چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم مزید کیا چانہیں؟ ہم جنت کے پھل جہاں سے چاہیں کھاتے ہیں۔ ان کے رب نے ان سے تین بار یہی سوال کیا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ان سے پوچھا جاتا رہے گا اور (سوال کا جواب دیئے بغیر) چھوڑا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا: اے رب، ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحیں ہمارے جسموں میں لوٹا دے تاکہ ہم ایک بار پھر تیری راہ میں مارے جائیں۔ جب "اس" نے دیکھا کہ ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو وہ (جنت میں اپنی خوشی کے لیے) چھوڑ دیے گئے۔“ (بخاری)
 ان کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ درج ذیل لوگ بھی میدان جنگ میں لڑے بغیر شہادت کے زمرے میں آتے ہیں: طاعون کا شکار ہونے والا شہید ہے، جو ڈوب جائے وہ شہید ہے، سینے کی تکلیف سے مرنے والا شہید ہے، پیٹ کے بیماری سے مرنے والا شہید، جل کر مرنے والا شہید، ملبے تلے دب کر مرنے والا شہید، اور حمل کی حالت میں مرنے والیاں شہید ہیں۔" (ابوداو¿د:3111)
 بے گناہ قتل ہونے والے مسلمان بھی شہید ہیں۔ چونکہ وہ معصوم جانیں ناگہانی موت کی وجہ سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے توبہ کرنے کے موقع سے محروم رہتی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اسلام کی جنگ میں شہید ہونے والوں کا کفن مختلف ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ 
اس موت کے بارے میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے: 
 "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شہید قتل ہونے کا درد محسوس نہیں کرتا سوائے اس کے جیسے تم میں سے کسی کو کیڑے کے کاٹنے کا احساس ہوتا ہے۔" (ترمذی: 2038) 
"شہید کی شفاعت اس کے خاندان کے 70 افراد کے حق میں قبول کی جائے گی"۔ (ابی داو¿د)
 شہدائ ، نبوت کے پہلے درجے کے بعد تیسرے درجے پر آتے ہیں، سبحان اللہ۔ 
"اور جو اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کی صحبت میں ہو گا جو اللہ کی طرف سے عطا کیے گئے ہیں: انبیاء، اہل حق، شہداء اور صالحین، کیا ہی معزز لوگ ہیں" (4:69)
ہم عام مسلمان بھی یہ رتبہ حاصل کر سکتے ہیں جس طرح کوئی بھی نیک کام اس کی نیت سے شروع ہوتا ہے اسی طرح اس با وقار موت کے لیے ایک عام مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے صدقِ دل سے دعا کرے اور یہ اسے ضرور حاصل ہوگا انشاءاللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو اخلاق کے ساتھ شہادت کا طالب ہے اس کا اجر اسے ملے گا چاہے اسے حاصل نہ ہو۔ (مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سچے دل سے اللہ سے شہادت مانگے گا اللہ اسے شہیدوں کے مرتبے تک پہنچا دے گا اگرچہ اس کی وفات اپنے بستر پہ ہی ہوئی ہو". (صحیح امام مسلم)
آخر میں یہ چند ایمان افروز الفاظ جو مسلمان کو شہادت حاصل کرنے میں جنون کی شدت تک پہنچا دیتے ہیں۔
چلے جو ہو گے شہادت کا جام پی کر تم 
رسول پاک نے بانہوں میں لے لیا ہوگا 
علی تمہاری شجاعت پر جھومتے ہوں گے 
حسین پاک نے ارشاد یہ کیا ہوگا 
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن