سوشل میڈیا کی آمد کے بعد حرمت کے معانی والے مہینے "محرم الحرام" کی آمد کی پر ایک عجیب سا طوفان بدتمیزی برپا ہو جاتا ہے. ایک وقت تھا جب پہلی محرم کا چاند طلوع ہوتے ہی اس کے احترام کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ہمارے اطراف کو غم کی اداس فضا اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی۔ ریڈیو ٹیلیویڑن اور گلی بازاروں میں بجنے والا میوزک ایک دم روک دیا جاتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ مسلکی اختلافات ضرور تھے مگر بات اس قدر مخالفت تک کبھی نہیں پہنچی تھی جتنی اب ہے۔ اہل تشیع حضرات کی مجالس اور تعزیہ کے راستے میں اہلسنت کے افراد یا تنظیموں کی طرف سے ٹھنڈے میٹھے پانی کی سبیلیں لگائی جاتی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کے نظریات اور فکر کو سنتے تھے اور ان پر سیخ پا اس لئے نہیں ہوتے تھے کیونکہ سنانے والے لوگ بھی وضع دار ہوا کرتے تھے۔ ہر شخص مذہبی یا مسلکی بحث میں انتہاپسندی سے دور رہ کر تعلق نبھانا چاہتا تھا کیونکہ اسے علم تھا کہ فریق دوم کے ساتھ اس کا تعلق ایک مذہب، ایک ملک اور ایک شہر یا علاقے کا تعلق ہے جسے ایسے نزاعی معاملات خراب کر سکتے ہیں۔۔۔ "سوشل" میڈیا کیا آیا ، گاو¿ں یاشہر کا اصل سوشل سرکل ختم ہو کر رہ گیا. ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ کر جو شرم، مروت یا تعلق کی لہریں نظر آتی تھیں، وہ میڈیم ہی غائب ہو گیا۔ اور لوگ ایک ان دیکھے، غیر متعلق اور انجان مخالف کو لتاڑنے لگ گئے۔۔ ایسا گھمسان کا رن ہے کہ الامان الحفیظ۔۔ ایک ہی مسلک اور ایک ہی فکر کے لوگ اپنے لیڈر، قائد یا پسندیدہ شخصیت کو "معصوم" ثابت کرنے کیلئے ان پاک ہستیوں پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے سے بھی باز نہیں آ رہے جن کی تطہیر، پاکیزگی اور بڑائی کی گواہی کائنات کے سب سے بڑے اور معتبر پلیٹ فارم پر دی جا چکی۔۔ ہر کوئی اپنے آپ کو حسینی اور اور اپنے سے تھوڑا سا اختلاف رکھنے والے کو یزیدی ثابت کرنے پر ت±لا بیٹھا ہے۔
اللہ کے بندو۔۔۔ تھوڑی سی لچک پیدا کرو، دوسرے کے موقف کو سن تو لو۔۔ انہیں سمجھنے کی کوشش تو کر کے دیکھو ہو سکتا ہے وہ تم سے بڑا حسینی ہو۔۔۔ آقا حسین علیہ السلام کو کیا منہ دکھاو¿ گے اگر انہوں نے قیامت والے دن تمہارا گریبان پکڑ لیا کہ فلاں شخص تو میرا محب تھا، تم نے اسے یزید کا ووٹ بنا دیا؟
میرا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ مسلمان (اور پھر سنی) ہونے کا دعویدار کوئی بھی شخص امام عالی مقام کے بارے میں غلط ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔۔ امام نہ صرف خود حق پر تھے بلکہ قیامت تک حق کا ساتھ دینے والوں کیلئے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔۔ انہوں نے ہر حق پرست کیلئے عملی جدوجہد کا وہ راستہ بتا دیا ہے جو کبھی باطل نہیں ہو سکتا۔ انہیں جاننے، انہیں پہچاننے اور انہیں ماننے والا ہر شخص ان پر مر مٹنے کا جذبہ رکھتا ہے۔۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں انتہائی ادنیٰ درجے کا مسلمان ہوں مگر مجھے جہاں صدیقی ہونے کی نسبت پر فخر ہے وہیں پر میرا ایمان کی حد تک یہ بھی یقین ہے کہ اگر میں امام عالی مقام کے دور میں پیدا ہوا ہوتا تو دنیا آج کربلا کے بہتر(72) کے بجائے (73) شہدا کا ذکر کر رہی ہوتی۔