اللہ کریم کے فضل و کرم سے 622 عیسوی میں حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے ریاست مدینہ قائم ہوئی اس مسلم ریاست نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں کے تحفظ اور حسن سلوک کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ اسلام تیزی سے پھیلتا گیا 630 عیسوی میں فتح مکہ کے وقت ہند اور ابو سفیان جیسے لوگوں کے لئے بھی عام معافی کے اعلان نے مسلمانوں کے لئے ایسے اثرات مرتب کئے کہ فتح مکہ کے بعد خلافت راشدہ کے دور تک مسلمانوں نے شمالی افریقہ 'طرابلس'اسکندریہ'ایشیا ئے کوچک 'عراق ایران 'شام اور آرمینیا تک فتح کر لئے حالانکہ اسوقت ایران اور بازنطینی ریاستیں عالمی طاقتیں تھیں اور انکے پاس منظم افواج اور تمام تر وسائل تھے لیکن مسلمانوں نے بغیر وسائل کے صرف اللہ پر یقین اور بھروسے کی طاقت اور اپنے شاندار رویوں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک ہی 22 لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کر لیا حالانکہ سکندر اعظم نے صرف دس لاکھ مربع میل فتح کیا اور اس دس لاکھ مربع میل پر بھی اسکی حکومت اس کے بعد باقی نہ رہ سکی لیکن مسلمانوں کے اس 22 لاکھ مربع میل پر آج 14 سو سال گزرنے کے بعد بھی مسلمانوں ہی کی حکومت ہے اس سے ہمیں پہلا سبق یہ حاصل ہوا کہ اللہ پر بھروسہ اور کامل یقین اور اپنا مضبوط کردار مسلمانوں کے سب سے موثر ہتھیار ہیں اسی طرع خلافت راشدہ کے بعد بنو امیہ کے دور میں بھی فتوحات کا سلسلہ مسلسل جاری رہا اور مسلمانوں نے مصر' تیونس' مراکش ' سپین ' خوارزم' بدخشاں اور سمرقند تک کے علاقے فتح کر لئے اس کے بعد خلافت عباسیہ جس نے بغداد کو نہ صرف اپنا مرکز بنایا بلکہ اسے عظیم تر سائینسی ' تہزیبی ' علمی اور سماجی انقلاب کا مرکز بنا کر ایجادات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور اتنی علمی اور سائینسی ترقی کی کہ یورپ کے لوگ بھی ان سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے بغداد آنے پر مجبور تھے لیکن اتنی عظیم ترقی اور آٹھ لاکھ منظم اور مسلح افواج ہونے کے باوجود خلافت عباسیہ نے ایک تاریخی غلطی کی کہ جب چنگیز خاں ہمسایہ مسلم ریاست خوارزم شاہ جس کی اپنی افواج بھی 8 لاکھ تھیں تباہ کرنے کے لئے خوارزم شاہ پر چڑھ دوڑا تو عباسی خلافت نے خاموش تماشائی رہنا بہتر سمجھا جس کی پہلی سزا سلطنت خوارزم شاہ کی چنگیز خان کے ہاتھوں مکمل تباہی کی صورت میں ملی اور دوسری اور بڑی سزا بعد میں 1258 عیسوی میں ہلاکوخان کے ہاتھوں بغداد کی مکمل تباہی کی صورت میں ملی جس نے خلافت عباسیہ کا باقاعدہ خاتمہ کر دیا تاریخ کے اس باب سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مسلم امہ اگر باہم مربوط نہ ہو تو پھر مضبوط ترین خلافتین بھی ختم ہو سکتی ہیں لیکن اللہ پاک نے مسلمانوں کو خوارزم اور بغداد کی تباہی سے جو سبق دیا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عثمانی ترکوں نے تیرھویں صدی میں ایک عظیم تر سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی جو بعد میں خلافت عثمانیہ بن گئی اسی طرع تباہی کے اس دور میں ہندوستان میں 1206 عیسوی میں محمود غزنوی اور محمد غوری کی فتوحات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مسلمان غلام قطب الدین ایبک نے ایک مضبوط مسلم حکومت قائم کی جو 7 سو سال تک پوری طاقت سے قائم رہی اسی طرع خلافت عثمانیہ نے اپنے قیام کے بعد ڈیڑھ صدی کے اندر ہی یورپ کا ایک بہت بڑا علاقہ فتح کر لیا اور دو صدیوں کے اندر خلافت عثمانیہ نے قسطنطنیہ تک سلطان فاتح کے ذریعے فتح کر لیا اور اسی خلافت عثمانیہ کے دور میں روس اور چین کے بہت سے علاقوں پر مسلم حکومتیں قائم ہو گئیں اور ہندوستان میں بھی مسلم مغلیہ حکومت نے حکومت کو وسطی اور جنوبی ہندوستان سے لے کر بنگال تک پھیلا دیا حتی کہ ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک میں بھی مسلم حکومتیں قائم ہو گئیں اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مکمل تباہی کے بعد بھی مایوس ہونے کی بجائے اگر عزم و استقامت اور یقین و بھروسے کا مظاہرہ کیا جائے تو زوال سے عروج کا سفر دنوں میں ہو سکتا ہے لیکن اس موقعہ پر خلافت عثمانیہ سے ایک تاریخی غلطی ہوئی کہ جب سپین میں فرڈینینڈ اور ملکہ ازابیلا مسلمانوں پر حملے کر رہے تھے تو انہوں نے یہ سوچا ہوا تھا کہ اگر خلافت عثمانیہ کی طرف سے انہیں چھوٹا سا پیغام بھی ملا تو وہ واپس بھاگ جائیں گے لیکن افسوس کہ خلافت عثمانیہ خاموش رہی جس طرع خلافت عباسیہ خوارزم کی تباہی پر خاموش رہی تھی اور خلافت عثمانیہ کی اسی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے سپین سے نہ صرف مسلمانوں کی 800 سالہ حکومت کا خاتمہ مکمل طور پر ہو گیا بلکہ وہاں سے مسلمانوں کی جبری مذہبی تبدیلی' نسل کشی اور جبری ہجرت کت ذریعے سپین سے مسلمانوں کا وجود تک ختم کر دیا گیا
اس سے ہمیں پھر یہ سبق ملا کہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے اور جب جب اس جسم کے مختلف حصوں نے ایکدوسرے کے معاملہ پر بے حسی کا مظاہرہ کیا تو اسکا نتیجہ بڑی تباہی کی صورت میں ملا قارئین گرام پندرھویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک 3 عظیم ترین مسلم حکومتیں موجود تھیں جو اسوقت دنیا کی بڑی سپر پاورز تھیں اور انکے اشاروں پر دنیا چلتی تھی ان حکومتوں میں عظیم ترین خلافت عثمانیہ تھی پھر ایران کی صفوی حکومت اور پھر ہندوستان کی مسلم مغلیہ سلطنت لیکن افسوس کہ یہ 3 مسلم طاقتیں باہمی مربوط نہ رہیں اور مسلم امرا اور حکمران عیاشیوں کا شکار ہو گئے اور انکی عاقبت نااندیشی سے اور میر جعفر اور میر صادق جیسے غدارون کی مدد سے سب سے پہلے تو انگریز استعماری طاقتوں نے ہندوستان سے مسلم حکومت کا مکمل خاتمہ 1857 عیسوی میں کر دیا اور بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کر دیا گیا پھر 1918 کی پہلی عالمی جنگ کے بعد تو مسلمانوں کے نفاق کی وجہ سے دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کی مرکزیت کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے خلافت عثمانیہ ہی ختم کروا دی افسوس کہ مسلمانوں نے تاریخ سے سبق حاصل نہ کیا اور ساری دنیا کے مسلمان خلافت عثمانیہ ختم ہونے سے روکنے میں اپنا کردار ادا نہ کر سکے جسکا خمیازہ ہمیں یہ بھگتنا پڑا کہ مسلمان جو دنیا کی سپر پاور تھے دوسری عالمی جنگ کے وقت پوری دنیا میں صرف 4 مسلم ریاستیں تھیں لیکن اللہ پاک کو ایک بار پھر مسلمانوں پر ترس آیا اور آج اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی 60 آزاد مملکتیں قائم ہیں لیکن آج بھی کشمیر فلسطین برما اور دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی نسل کشی پورے زور شور سے جاری ہے اور آج مسلمان ممالک صنعتی اور اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط بھی ہیں اور پاکستان جیسے اسلامی ملک کو ایٹمی پاور ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے اب فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم نے کیا کشمیر میں سپین کی طرع مسلمانوں کی نسل کشی ہونے دینا ہے وہی تاریخی غلطی کر کے جو سقوط غرناطہ اور خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے موقع پر کی گئی یا ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کشمیر میں بھارتی مظالم کو روکنے کے لئے کوئی عملی کردار ادا کر کے اس تاریخی غلطی سے بچ جائیں اسی طرع فلسطین میں جاری مظالم کو ہماری عرب طاقتیں اور مصر روکتے ہیں یا پھر وہی تاریخی غلطی کر کے وہاں سے بھی مسلمانوں کا خاتمہ ہونے دیتی ہیں قارئین کرام اس مختصر تاریخ کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ تاریخ میں بعض غلطیاں پوری تاریخ کو بدل دیتی ہیں اور ہمیں بالخصوص ان غلطیوں سے تو بچ جانا چاہئے جن کی وجہ سے ماضی میں ہم نے بہت بڑے بڑے نقصانات اٹھائے اتحاد امت مسلمہ وقت کی ضرورت ہے اور اس اتحاد کے ذریعے اگر امت مسلمہ باہم مربوط ہو جائے تو پھر پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں نہ صرف وہ ختم ہو جائیں گے بلکہ امت مسلمہ اپنا کھویا ہوا وقار اور طاقت پھر سے حاصل کر لے گی بقول شاعر ذرا نم ہو تو بڑی زرخیز ہے یہ مٹی بس نم لگانے کی ضرورت ہے اور اس نم کے لئے ہی میری یہ حقیر سی کاوش ہے
مضمون: ذرا نم ہو تو بڑی زرخیز ہے یہ مٹی
Jul 17, 2024