اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پیارے نواسے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند، سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لخت جگر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد صدیاں گزرنے کے بعد بھی اسی عقیدت، جوش و جذبے اور آہ و زاری کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ سانحہ کربلا کا ذکر کیجئے تو یہ معروف شعر ذہنوں میں گونجنے لگتا ہے۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
دنیا کے ہر شہر میں جہاں بھی مسلمان موجود ہیں وہ محرّم کے مہینے میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں ان سے اپنے اپنے انداز میں والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے نواسے کی پیدائش کے بعد ان کے کان میں پہلی اذان دی تھی۔ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر اپنے عظیم اور محترم نانا کی اس اذان کا بھرم رکھا اور لا الہ الا اللہ کا پرچم بلند رکھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں“ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نانا کے اس فرمان کو سچ ثابت کر دکھایا جب خدا کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین خطرے میں تھا تو حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کی قربانی دے کر اسلام کو زندہ و جاوید کر دیا اور اپنے نانا کے مقدس نام کا تحفظ کیا۔ ناموس رسالت پر حرف نہ آنے دیا۔ افسوس آج ایک بار پھر اسلام بحرانی دور سے گزر رہا ہے اور آج ایک بھی حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود نہیں جو اسلام کو زوال سے نکالنے کی پرجوش پرعزم اور سرگرم جدوجہد کرے۔ یزید کے پیروکار اسلام کا روشن چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں”امربالمعروف نہی عن المنکر“ کے سنہری اسلامی اصول پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب دیکھا کہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو رہی ہے قرانی احکام پر عمل نہیں ہو رہا ظلم اور نا انصافی ہر روز بہت بڑھتی جا رہی ہے تو انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے علم جہاد بلند کیا اور امت کی اصلاح کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ یزید نے مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ حسینؓ سے بیعت لو یا ان کا سر کوفہ بھیجو۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیعت سے انکار کیا اور مکہ منتقل ہو گئے۔ انہیں حج کے موقع پر قتل کرنے کی سازش کی گئی۔ جب حضرت امام حسین رضی کو اس سازش کی اطلاع ملی تو وہ حج سے پہلے مکہ سے کوفہ کی جانب کوچ کر گئے- اہل کوفہ نے ہزاروں خطوط لکھ کر حضرت حسین رضی کو کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔ مکہ سے روانگی سے پہلے انہوں نے علماءسے خطاب کیا اور فرمایا ”آپ اسلام کے ہیروز ہیں عوام میں آپ کی شناخت ہے عوام کی رہنمائی کرنا انہیں صراط مستقیم پر چلانا آپ کا مذہبی فریضہ ہے آپ کے سامنے قران و حدیث کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور آپ احتجاج نہیں کر رہے۔ حالانکہ ظلم اور نا انصافی کے خلاف جہاد اسلام کا سنہری اصول ہے۔ مگر آپ زندگی سے پیار کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں۔“
حضرت امام حسین رض کے اس خطبے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق جہاد کرنے کے لیے نکلے تھے ان کے قافلے میں بچے جوان بوڑھے عورتیں اور مرد سب شامل تھے۔ جو کسی لالچ کے لیے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے یا کوئی علاقہ فتح کرنے کے لیے نکلتا ہے وہ کبھی بچوں اور عورتوں کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جاتا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تبلیغ کے ذریعے جہاد کرتے تھے مگر جب ان کو محسوس ہوا کہ یزید کے ہاتھ پر بیعت یا شہادت کے بغیر اور کوئی راستہ نہیں ہے تو انہوں نے اسلام کے لیے شہادت کو قبول کر لیا۔ جیسے فیض احمد فیض نے کہا ہے ۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
معاویہ اپنے بیٹے یزید کی بادشاہت کو مستحکم اور مضبوط کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے کی بجائے ملوکیت کے راستے پر چلنا شروع کر دیا۔ مو¿رخین کے مطابق معاویہ نے یزید کو نصیحت کی تھی کہ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر بیعت سے انکار کریں تو درگزر سے کام لینا مگر تحمل برداشت رواداری یزید کی فطرت کے خلاف تھی۔ اس نے وہ ظلم و ستم کیے جن کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ زہیرایک سنی تھا اس نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیغام کو سنا تو بیوی بچوں کو چھوڑ کر قافلہ حسین میں شامل ہو گیا۔ کربلا کے میدان میں جب حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تیروں کی بارش ہو رہی تھی تو زہیرحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ڈھال بن گئے اور شہید ہو گئے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کسی کی اجارہ داری نہیں وہ بلا تفریق اور بلاامتیاز سب کے محبوب ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت سے کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے خدا میں حسنؓ اور حسینؓ سے محبت رکھتا ہوں ان سے محبت کیجئے اور ان سے بھی جو ان دونوں سے محبت کریں۔ کربلا کے میدان میں جب یزید کی فوجوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا محاصرہ کر لیا تو عاشورہ سے ایک رات پہلے حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام چراغ گل کر دیے اور کہا کہ جو شخص واپس جانا چاہے اسے اجازت ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ احترام آدمیت کے قائل تھے اور کسی کو شرمسار دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ نے جوانی کے دور میں ایک بزرگ کو غلط وضو کرتے ہوئے دیکھا تو ان کی اصلاح کے لیے احترام آدمیت پر مبنی طریقہ اختیار کیا اور بزرگ سے درخواست کی کہ وہ وضو کرتے ہیں اور بزرگ ان کی اصلاح کردیں۔ اس طرح بزرگ کی عزت نفس بھی قائم رہی اور انہوں نے وضو کا درست طریقہ بھی سیکھ لیا۔ ہم مسلمان اپنے اپنے انداز میں حضرت امام حسین سے محبت اور عقیدت کا اظہار تو کرتے ہیں مگر ان کی سیرت اور کردار پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اگر ہم حضرت امام حسینؓ سے احترام آدمیت کے فلسفے کو ہی سیکھ لیں تو فرقہ واریت اپنی موت آپ مر جائے-حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ کی عظیم شہادت کا سبق یہ ہے کہ ہر مسلمان کو قران کی تعلیم کے مطابق نیکی کی تبلیغ کرنی چاہیے اور برائی سے روکنا چاہیے۔ جب بھی اسلام کے بنیادی اصولوں کو خطرہ لاحق ہو جائے تو پھر ہر مسلمان کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ جہاد کا اعلان کرے اور اسلام کا تحفظ اور دفاع کرے۔ یزید ہر دور میں ہوتے ہیں حسینیتؓ کا پیغام یہ ہے کہ ہر دور کے یزید کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ بقول شاعر
جب بھی کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاو¿ تم حسین کے انکار کی طرح
ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پر آہ و زاری کرنے سے زیادہ ان کے فلسفہ شہادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کے ابدی اور لافانی پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جنگ بدر اور سانحہ کربلا دونوں کا سبق یہ ہے کہ افرادی کمی حق کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ پر ایمان اور توکل مضبوط اور مستحکم ہو تو راستے کی ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ اللہ پر ایمان کامل رکھنے والوں عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیرو کاروں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک آہ و زاری اور ماتم کرتے رہیں گے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو کب تک اسلام کے سنہری اصولوں کے منافی یزیدیت اور ملوکیت کے طور طریقوں پر چلایا جاتا رہے گا۔ ایک گمنام شاعر کے نوحہ کے چند اشعار نذر قارئین ہیں۔
یہ ارض کربلا ہے چلو دیکھ بھال کے
ٹکڑے یہاں پڑے ہیں محمد (صلعم) کی آل کے
اونچا رہے اپنا علم اونچا رہے اپنا علم
جب تک ہے دور آسماں
سن لے یہ ہر پیر و جواں
آواز پر شبیر کی
بڑھتا رہے یہ کارواں
رکنے نہ پائے یہ قدم
اونچا رہے اپنا علم
٭....٭....٭