قاتلانِ خانوادہ رسول نشان عبرت جبکہ امام حسین ابد تک زندہ ئ وجاوید ہوگئے

ماہ محرم الحرام کا سب سے اہم اور دل سوز واقعہ شہادت حسین ؓ ہے جو 10محرم الحرام 61ھ کو واقع ہوئی۔ مید ان کربلا میں عظیم اور لازوال قربانیوں، خونیں واقعہ کی یاد ہر سال پورے عالم اسلام میں منائی جاتی ہے۔ اور ہرسال پورے عالم اسلام اور دنیا بھر میںجہاں کہیں بھی کروڑوں مسلمان بستے ہیں شیعہ بھی اور سنی بھی امام حسین ؓکی شہادت پر رنج و غم کااظہار کرتے ہیں۔ میدان کربلا کی عظیم قربانیوں کا مجالس اور عزاداری میں ذکر ہوتاہے۔ یزید اور یزیدیت کے ظلم کا پوری نفرت سے اظہار کیاجاتاہے لیکن یہ بہت ہی المناک افسوس ہے کہ غمگساروں میں سے بہت کم لوگ اس اصل مقصد کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ امام حسین ؓنے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی، اپنی گردن کٹوادی اور اپنے خاندان کے بچوں تک کو شہیدکرادیا، اہل ایمان کے لیے خاندان محسن انسانیت کی مظلومانہ شہادت پر محبت و عقیدت، ہمدردی، غم و اندوہ کا اظہار فطری بات ہے اور ہر مسلمان رسول اللہ ؐکے ساتھ عشق اور محبت رکھنے والا بجا طور پر رنج و غم کااظہار کرتاہے اور اس ظلم پر قیامت تک اظہار غم ہوتا رہے گا اور باطل کا چہرہ بے نقاب ہوتا رہے گا۔

حضرت امام حسین کا شہادت میں بھی عظیم رتبہ ہے۔ سید الشہداء کے لقب سے بھی یاد کیاجاتاہے کیونکہ ان کی قربانی جتنی عظیم ہے اتنی لازوال بھی ہے۔ مقتولین فی سبیل اللہ کے لیے قرآن کریم کی سورۃالبقرہ میں آیا ہے
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مارے جائیں،انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔‘‘شہید کربلا کی قربانی اس وجہ سے بھی بے مثال ہے کہ انہوں نے جان و مال کے ساتھ اہل وعیال کو بھی اس راہ میں قربان کردیا۔ یہ انہی کی قربانیوں کا فیض تھاکہ قاتلان حسین اس دنیا میں روسیاہ ہوگئے قتل ہوگئے۔ دنیانے ان کے انجام سے عبرت پکڑی۔مکافات عمل کی اس دنیا میں اجتماعی مثالی سزا یابی نے جہاں قاتلان، خانوادہء رسول ؐکو مرقع عبرت بنادیا وہاں امام حسین ؓ کو بھی زندہء و جاوید بنادیا اور حق کاعلم بلند کرنے کامضبوط ترین استعارہ بنادیا۔
حضرت امام حسین بہت دانا، زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے، بیعت یزید کے لیے جو ناروا،توہین آمیز، ظلم و جبر کے ساتھ کوششیں کی جارہی تھیں ان واقعات سے انہوں نے حالات کے رخ کااچھی طرح اندازہ کرلیاتھا انہوں نے اچھی طرح جان لیاتھا کہ حالات کے رخ اور باطل نظام کی منہ زوری کے آگے رکاوٹ صرف قربانی سے ہی کھڑ ی کی جاسکتی ہے جس کیلئے قربانی اور استقامت کی ضرورت ہے۔ آپ سفرکربلا کے لیے روانہ ہوئے تو حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان کھڑے تھے تو بعض حجاج نے کہا کہ آپ یہاں رہنا چاہیں تو آئیے حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے لیجیے ہم آپ  کے بہی خواہ اور معین شریک رہیں گے ہم آپ کی بیعت کریں گے۔ امام حسین نے جواب دیاکہ میں نے اپنے باپ سے یہ حدیث سنی ہے کہ ایک مینڈھا مکہ کی حرمت کو حلال کردے گا۔ میں وہ مینڈھا نہیں بننا چاہتا دراصل آپ کو اپنے مشن کی ضرورت اور اہمیت کا پورا پورا احساس تھا۔ سفر کے آغاز پر حضرت ابن عباسؓ اور دیگر حضرات نے عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے جانے کی مخالفت کی۔ لیکن آپ  اس قربانی کو نقطہ عظیم تک پہنچانا چاھتے تھے۔ اس لیے آپ بمعہ اہل و عیال عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ اہل حق نے اظہار حق کے لیے بلاشبہ اپنے مشن کے لیے بڑی قربانیاں دیں۔ یہ تاریخ کاحصہ ہے لیکن اپنے بال بچوں تک کی عظیم قربانی اس نوع سے کسی نے پیش نہیں کی۔ 
یہ اہم ترین سوال ہے کہ امام حسین ؓ کی شہادت کی وہ کیاخصوصیت ہے کہ ۱۴۰۰سال گزر جانے کے باوجودہر سال ان کاغم تازہ ہوجاتاہے۔ اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد۔ حقیقت یہ ہے کہ میدان کربلا کی شہادتیں اور ان کاپیغام کیاہے جاننا ضروری ہے، اسی سے اْمت اپنی عظمت رفتہ کا احیاء کرسکتی ہے۔ امام حسین ؓ بلند اخلاق، سیرت کے اعتبار سے بلند مقام رکھتے تھے۔ یہ گمان ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنی ذات اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے کچھ کررہے تھے۔ آپ کا عزم و ارادہ شہادت قربانی، دین متین کے احکامات اور خاتم الانبیاء کے اسوہء کو بچانے کے لیے ہی تھی۔ مفکر اسلام سیدابوالاعلیٰ مودودی نے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔’’یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے بڑی خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی جس سے اسلامی ریاست کے اصول،دستور ریاست کے مزاج، روح اور مقاصد میں تبدیلی مسلط کی جارہی تھی۔یہ عظیم قربانی محض اس لیے نہیں تھی کہ یزید کی صورت میں برا آدمی برسراقتدار آگیاہے یہ شخصی معاملہ بھی بنیاد نہیں، اصل صورت تو یہ تھی کہ خلافت راشدہ اور اللہ اور اس کے رسول ؐکے اصولوں کو پامال کیاجارہاتھا یہ ہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امام ؓنے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دی‘‘۔
 امام حسین ؓنے دین اور ملت کو بڑی آفت سے بچانے کے لیے سب کچھ داؤپر لگا دیا۔ اسلام کو مکمل ضابطہء حیات،نظریہء حیات سے انکاری ذہن یا کسی کا بھی جی چاہے تواسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر حسین ابن علی ؓکی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی، اپنے خاندان کو قربان کردیا۔ وقت کے یزیدوں اور یزیدی نظام کے خلاف پیغام حسینیت یہ ہی ہے کہ اہل ایمان باطل کے آگے سپر نہ ڈالیں۔

ای پیپر دی نیشن