سلیم شہزاد قتل، یہ ایک صحافی کاقتل ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ ۔چیف جسٹس آف پاکستان

چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس طارق پرویز پر مشتمل تین رکنی بنچ نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی درخواست کی سماعت کی۔ پی ايف یو جے کی طرف سے صدر سپریم کورٹ بارعاصمہ جہانگیر اور منیر اے ملک پیش ہوئے۔منیراے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی جج کو تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ یا رکن مقررکرنے سے پہلے چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کيس کی سپریم کورٹ کے جج سے تحقیقات کرانا اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ معاملہ ایک وفاقی ایجنسی سے متعلق ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے عاصمہ جہانگیر سے استفسار کیا کہ کیا سلیم شہزاد کے قتل کا مقدمہ درج کر لیاگیا ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ مقدمہ تو اسلام آباد میں درج کر لیا گیا ہے مگراس کی تفتیش پنجاب پولیس کر رہی ہے۔عاصمہ جہانگیر نے عدالت میں یہ بھی انکشاف کیا کہ سلیم شہزاد کے قتل کے واقعہ سے پندرہ روز پہلے کا موبائل ریکارڈ بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔عدالت نے دلائل سننے کے بعدوفاقی سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری اطلاعات اور سیکرٹری قانون کو نوٹس جاری کر دئیے ،دوسری جانب آئی جی اسلام آباد اور ڈی پی او منڈی بہاؤالدین کوبھی اب تک کی تفتیشی رپورٹ کے ساتھ بیس جون کو طلب کر لیا گیا ہے جبکہ اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو عدالتی معاونت کی ہدایت کی گئی ہے، کیس کی مزید سماعت بیس جون کو ہوگی۔

ای پیپر دی نیشن