انتخابات 2013 ءاختتام پذیر ہوئے ۔ مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہوگیاہے ۔ ہم عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت طشت از بام ہے کہ انتخابی عمل میں خرابیاں ، کوتاہیاں اور بدعنوانیاں عروج پر رہی ہیں ۔ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو عملاً انتخابی جمہوری حق سے محروم کر دیا گیا ہے فاٹا میں مرضی کے نتائج کے لیے فاٹا کے عوام کے ساتھ ڈرون حملوں سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے ۔ بلوچستان میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابی عمل مکمل طو ر پر مشکو ک ہواہے ۔ پنجاب میں پی ٹی آئی عید کے بعد دھاندلیوں کے ثبوت کے ساتھ احتجاج کا اعلان کر رہی ہے ۔
جماعت اسلامی کے لیے انتخابات 2013 ءمثبت اور منفی نتائج کا سبب بنے ہیں ۔ کارکنان اور جماعت اسلامی کے ہمدردوں کو دکھ اور صدمہ ہوا ملک بھر سے بہی خواہ اپنی آراء، تجزیوں اور تجاویز کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ہم ان تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ انشاءاللہ احسا س زیاں کیساتھ اپنی غلطیوں کوتاہیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کے جذبہ کے ساتھ ان تجاویز کی روشنی میں اصلاح کیساتھ ساتھ انشاءاللہ پیش رفت کرینگے ۔
جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقدہ 30-31 مئی 2013 ءمیں انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی ، معاشی اور سلامتی کی صورتحال پر طویل بحث کی گئی ۔ جماعت اسلامی پاکستان نے نئی قیادت ، مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کو ملک کو درپیش بڑے بڑے چیلنجز کی طر ف متوجہ کرتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے روڈ میپ دیا ہے ان پر عمل کر کے ہی ملک بحرانوں سے نکل سکتاہے ۔
مرکزی حکومت کے لیے پاکستان کی آزادی و خود مختاری کا تحفظ پہلی ترجیح ہونا چاہیے۔ ہم بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ قومی آزادی وخود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے قومی اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف مل کر ایک قومی پالیسی تشکیل دیں گے۔ آنے والے حکمرانوں اور پارلیمنٹ کو صاف الفاظ میں یہ اعلان کرنا ہوگاکہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن اور تجارتی معاہدے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل دریائی پانیوں ، سیاچن سر کریک اور بھارت کی طرف سے تخریب کاری کے مسائل و معاملات کے حل کے ساتھ مشروط ہوں گے اسی طرح ضروری ہے کہ ہر قیمت پر ڈرون حملے بند کرائے جائیں اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی باعزت واپسی اور لاپتہ افرا د کی بازیابی کو بھرپور اہمیت دی جائے۔ ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمہ اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا بھی مرکزی و صوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہیے ۔ ہمارے نزدیک دہشت گردی کے خاتمہ اور امن عامہ کے قیام کے لیے مندرجہ ذیل نکات انتہائی ضروری ہیں ۔
1۔ اب جبکہ امریکی اور نیٹو افواج افغانستان سے واپس جا رہی ہیں ۔ ہمارے لیے ا مریکہ کی اندھی حمایت اور تابعداری کی پالیسی کو مکمل طور پر تبدیل کرنا ضروری ہے۔ریمنڈ ڈیوس جیسے کتنے ہی نیٹ ورک اب بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان کی تخریبی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے مو¿ثر اقدام اولیں ضرورت ہیں۔اور اس سلسلہ میں پارلیمنٹ بلا تاخیر قومی آزادی و خودمختاری کے تحفظ پر مبنی پالیسی کااعلان کرے۔
2۔طالبان کے ساتھ مذاکرات کاراستہ اختیار کیا جائے۔ ان مذاکرات کو با مقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے لازمی ہے کہ ملک کے سارے ادارے ایک دوسرے کی تقویت کا ذریعہ بنیں۔ اس مقصد کے لیے ڈرون حملوں کی بندش اور فوجی آپریشنوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ماضی میں جب بھی قیام امن کے لیے مذاکرات کاعمل شروع کیا گیا اور قبائل میں امن معاہدے ہوئے تو اسے امریکہ نے ہی سبوتاژ کیا۔
3۔کراچی میںقیام امن کو سرفہرست رکھا جائے۔ کراچی منی پاکستان ہے اور یہاں امن کا قیام ہمارے معاشی استحکام کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔کراچی کے قیام امن کے لیے ضروری ہے کہ وہاں فوج کی نگرانی میں دوبارہ شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ اسی طرح کراچی میں اب تک ہونیوالے دہشت گردی کے تمام واقعات کی جوڈیشل انکوائری کراکے قاتلوں ،بھتہ خوروں ،ٹارگٹ کلرز کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ سپریم کورٹ بھی کراچی میں بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کی سیاسی وابستگیوں کو واضح کرچکی ہے۔ کراچی میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کیلئے رینجرز اور پولیس کو ان عناصرسے پاک کیا جائے جن کا تقرر سیاسی بنیادوں پر ہواہے اور آئندہ کیلئے یہ دروازہ بند کیا جائے۔
ملک میں توانائی کا بحران اپنی انتہا کو پہنچ چکاہے ۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ بدترین صورت اختیار کرچکی ہے ۔ ہزاروں صنعتیں بند ہیں اور دیہاتوں میں ہی نہیں شہروں میں بھی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 18گھنٹے روزانہ ہوچکاہے۔ بجلی فراہم کرنے والے اداروں کے کرپٹ اور نا اہل افسران و اہلکار اس صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس ظلم پر مستزاد کہ نرخوں میںبھی ظالمانہ اضافہ کیاگیاہے اور عوام سے گزشتہ کئی ماہ کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو اب وصول کیاجارہاہے۔ یہ صورت حال قطعاً ناقابل قبول ہے ۔ اس ضمن میں سرکلر ڈیٹ کے لیے رقم کی فراہمی ، لائن لاسز پر کنٹرول اور بجلی چوری پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اور فوری اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔
تباہ حال معیشت کی بحالی موجودہ حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔
1۔ اس وقت پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ 140کھرب روپے سے زیادہ ہے ۔ اس لیے آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے سے مکمل اجتناب کیا جائے ۔ خود انحصاری کا راستہ اپنایا جائے اور بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرکے ان سے زرمبادلہ میں اضافہ کی معاونت حاصل کی جائے۔
2۔ شاہانہ اخراجات ختم کئے جائیں ۔ غیر پیداواری مصارف میں خاطر خواہ کمی کی جائے ۔ سادگی کا راستہ اپنایا جائے ۔
3۔ ٹیکس کلچر کو فروغ دیا جائے ۔حکمران طبقہ بالخصوص ممبران پارلیمنٹ دوسروں کے لیے مثال بنیں ۔ بالواسطہ ٹیکس کم کرکے براہ راست ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے ۔ ٹیکسوں کی شرح کم ہو جبکہ ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے ۔
4۔سودی معیشت جس کے خلاف اللّٰہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے،اس سے ملک کو پاک کیا جائے۔ چنانچہ سود کے خاتمہ کے خلاف فیڈرل شریعت کورٹ میں دائررٹ درخواست واپس لی جائیںاور اسلامی معیشت کو فروغ دیا جائے۔
اس وقت ہر شعبہ زندگی میں کرپشن کا زہر بُری طرح سرایت کرچکاہے ۔ گذشتہ پانچ سالوں میں اوپر سے شروع ہونے والی بدترین کرپشن نے نیچے تک اپنے پنجے گاڑ دیئے ہیں۔ اس بدترین کرپشن نے ملک کے اہم ترین اداروں بشمول اسٹیل مل ، پی آئی اے ،واپڈا ، ریلوے ،پی ٹی سی ایل ،نیشنل انشورنس کارپوریشن ٹریڈنگ کارپوریشن کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سرکاری معاہدوں اور کنٹریکٹس کی تفصیل ،انٹرنیٹ پر میسر ہواور تمام حکومتی معاشی سرگرمیاں عوام اور میڈیا کے لیے مکمل شفاف ہوں ۔ صوابدیدی فنڈز مکمل طور پر ختم کئے جائیں ۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کاچیئرمین اپوزیشن میں سے مقرر کیا جائے اور نیب سمیت تمام اداروں میں دیانتدارافراد کی تقرریاں میرٹ پر کی جائیں۔
سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے خلاف تمام مقدمات بالخصوص آرٹیکل 6کے تحت مقدمے میں حکومت پاکستان خودمدعی بنے اور کیس کی ٹھوس پیروی کے ذریعے کوشش کی جائے کہ آئین توڑنے کے جرم میں جنرل پرویزمشرف کو عدالتی کٹہرے میں لایا جائے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنی مستقل پالیسی کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کے بارے میں ہمارا طرز عمل مخالفت برائے مخالفت کا نہیں ہوگابلکہ قرآنی تعلیمات کے مطابق ہم خیر اور اصلاح کے معاملات میں تعاون کریں گے اور گناہ و سرکشی کے معاملات میںبھرپور مخالفت کریں گے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں جہاں جماعت اسلامی حکومت میں شریک ہے اصلاح احوال کے لیے مو¿ثر کردار ادا کرے گی اور مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں میں اور اسمبلیوں کے باہر حزب اختلاف کا مو¿ثر کردار ادا کرے گی ۔