اعجاز شیخ
ہر بجٹ عوام کے لےے ایک آس،امید کا پیغام لا تا ہے ۔ مگر ہندسوں کے گورکھ دھندے کی بدولت دی گئی مراعات کے ذریعے ہر حکومت یہ باور کرا دیتی ہے کہ اس سے زیادہ دینے کے بعد باقی کچھ نہیں بچتا ۔ ورنہ حکومت وہ بھی عوام پر نچھا ور کر دیتی ۔ عوام بھی حکومتوں کی مجبوریوں ، دلا سوں کے باعث بالآخریہ یقین کر لیتے ہیںکہ ہما رے مقدر میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ہی ہمیں ملنا ہے ۔ لہٰذا صبر کرنا ہی منا سب ہے ۔ مو جو دہ بننے والی نوازشریف صاحب کی گورنمنٹ کا یہ پہلا بجٹ ہے ۔ جب خزانہ خالی ہو اور قرضو ں کا انبار سر اٹھانے نہ دے ۔ تو پھر عوام کو کچھ ریلیف دینے کے لےے کیارہ جا تاہے ۔ مقرو ض کا کوئی بجٹ نہیںہو تا ۔ کیونکہ اس کا آئندہ ملنے والے ادھار کے اوپر سارا دارومدار باقی ہو تا کچھ ایسی صورت حال سے وطن عزیز دوچار ہے ۔ نواز شریف کی حکومت صدق دل سے عوام کی بھلائی کے لےے کمر بستہ ہو کر میدان میں اتری ہے ۔ مگر مسائل کے پہاڑ فی الحال سدراہ ہیں ۔اس بجٹ میں مو جو دہ حکومت کوئی بریک تھرو نہیں کر سکی۔ جس کی امید پچھلے دنوں میں کی جا رہی تھی ۔ پچھلے دور کے بجٹوں کا اگر آپ غور سے جا ئزہ لیں تو بجٹ 2013-14 بھی اسی کا عکس ہے ۔ جی ایس ٹی پر ایک فیصد اضافہ کو دیکھ لیں حکومت نے اس ٹیکس میں کمی کی بجائے ۔ اضافہ کولا گو کرکے اپنے ہدف کو پوراکرنا آسان سمجھا ہے ۔1% کے اضافے سے مہنگائی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی کی عفریت سے نبرد آزما ہیں کیا ہی بہتر ہو تا کہ جی ایس ٹی کو بڑھانے کی بجائے ریونیو کا ٹارگٹ پو راکرنے کے لےے ان بڑے مگر مچھو ں سے ٹیکس وصول کیا جا تا ۔ جن کے پا س بے انتہا دولت مو جو دہے ۔ ایک جا ئزہ کے مطابق 20لاکھ ایسی متقدر ہستیاں پا کستان میں موجو دہیں ۔ جنہیں کروڑ پتی یا ارب پتی کہا جا تاہے ۔ مگر حکومت کو واجب الادا ٹیکس ادا کرنا وہ گناہ کبیرہ گردانے ہیں ۔ نا درا نے بہت پہلے مختلف محکموں سے جو معلومات اکٹھی کی ہیں اس کی روشنی میں اشرافیہ جن کی تعداد تیئس لا کھ چھیتر ہزار پانچ سو چوبیس ہے ۔ ایسے امیر لو گ ہیں جو اپنے حصہ کا ٹیکس ادا کردیں تو حکومت کو ہر سال 86 ارب روپے کی اضافی آمدن ہو سکتی ہے ۔ حکومت چاہتی تو اس بجٹ 2013-14 میں ہنگامی طور پر ان امراءسے ٹیکس لینے کا اعلا ن کر کے ثابت کر سکتی تھی کہ اب ہر وہ شخص ٹیکس ادا کرے گا ۔ جو ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے ۔ مگر بڑی حیرانگی کی بات ہے کہ ایسا کوئی انقلا بی قدم اٹھانے کے لےے وزیر خزانہ نے کچھ کہنا منا سب خیال نہیں کیا ۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیا ں ہے کہ عوام لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے دوچار ہیں ۔ توانائی کے بحران کے خاتمے کے لےے بارہا وزیر اعظم صاحب نے یقین دلایا ہے کہ وہ بتدریج اس پر قابو پا لیں گے ۔ اس کے لےے 225 ار ب بھی مختص کےے گئے ہیں ۔ اس سے پانی اور کوئلے کے وسائل سے آٹھ پراجیکٹس پر کام آئندہ دو ایک ہفتوں میں شرو ع ہو جائیگا۔ مگر اس سے زیادہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لےے حکومت کو اعلا ن کر نا چاہےے تھا ۔ مگر بجٹ 2013-14 میں اس اہم پراجیکٹ کے شروع کرنے نہ کرنے کے لےے کچھ عندیہ نہ دیا ۔ جس سے ظاہر ہو تاہے کہ ہائی کورٹ کا فیصلے برائے تعمیر کالا باغ ڈیم اور اکثریت رکھنے کے باوجود اس مسئلے کو حکومت چھیڑنا نہیں چاہتی ۔ لہٰذا فی الواقعہ بجلی کا بحران جلد ختم ہو نا ناممکن لگتا ہے ۔محترم وزیر خزانہ نے بجلی کے نر خوں میں 6 روپے فی یو نٹ کا اضافہ اور بجٹ خسارہ 30 جون 2013 تک دوگنا ہونے کی نوید سنائی ہے ۔ اس بیان کی روشنی میں وزیر خزانہ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں ۔ کہ عوام کو ریلیف دینے میں کچھ کسر باقی نہیں چھوڑی ۔ اس مہنگائی کے دور میں ملازمین جس حال سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ تنخواﺅں میں اضافہ نہ کرنا ۔ کسی لحاظ سے نا منا سب نہیں ۔ پینشنر حضرات کی پنشنوں میں 10% اضافہ خوش آئیند ہے مگر ایسے ملازمین جنہوں نے سرکاری ملازمت شروع کی پھر حکومت نے ان اداروں کو نج کا ری کے نام پر فروخت کردیا ۔ ان میں خصوصاً کچھ بینکوں کا تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ ان میں حبیب بینک ، الائیڈ بینک اور مسلم کمرشل بینکوں کے ریٹائرڈ ملازمین جو 2000 ءسے ریٹائر ہو گئے تھے مذکورہ بینکوں کے مالکان نے اربوں روپے منا فع کمانے کے باوجود 2000 ءسے آج تک اپنے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشنوں میں ایک پائی کا اضافہ کرنا منا سب نہیں سمجھا ۔ مذکورہ ملازمین ان قلیل پینشنوں میں کیسے گزارہ کر رہے ہیں ۔ ان کی تفصیل کا اندراج یہاں مناسب نہیں ۔بجٹ 2013-14میں ان ریٹائر ڈ ملازمین کی پینشنوں میں اضافہ کے لےے متعلقہ بینکوں کو پابند کیا جا تا ۔ جنا ب اسحا ق ڈار صاحب وزیر خزانہ صاحب ایک اچھے چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہونے کے نا طے سے بینکوں کے معاملا ت سے اچھی طر ح بخو بی علم رکھتے ہیں ۔ مگر ملکی بجٹ بنانے کے لےے ایک وسیع وژن ہونا بھی ضروری ہے ۔ ان کے بقول نئے قرضوں سے آئی ایم ایف کا ادھار واپس کرنے میں کوئی قباحت نہیں ۔ ایسا ہے تو پھر معاشی ترقی کے لےے کچھ کڑوی گولیاں نگلنابھی بہت ضروری ہیں ۔ ان میں ٹیکس چوروں سے لے کر بجلی چوروں سے ایک ایک پائی وصول کرکے معاشی پہیہ چلا یا جا سکتا ہے ۔ ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ جس نے ابھی آخری قسط حال ہی میں ادا کر کے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لےے معذرت کر لی ہے ۔ بجٹ 2013-14میں ایک دیرینا مسئلہ جس سے عوام دوچار ہے ۔ وہ محکمہ ٹرانسپوٹیشن ہے ۔ اس اہم شعبے سے عرصہ تین دہائیوں سے حکومت نے لا تعلقی اختیار کر رکھی ہے۔ دنیا میں آپ جہا ں چلے جائیں سرکاری ٹرانسپورٹ کی بدولت جہا ں عوام پر سکون ہو کر سفر کر تے ہیں ۔جس سے وہا ں پر نجی گاڑیوں کا استعمال بھی بہت حد تک کم ہو گیا ہے ۔ انگلینڈ میں ریل کا کرایہ قدرے مہنگا اس لےے ہے کہ وہاں کے عام و خاص ، اپنی ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے کی بجائے اس کو محفوظ اور آرام دہ سمجھتے ہیں ۔ مدت ہوئی ہما رے وطن عزیز میںنا کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ کے لےے محکمہ ہے نہ ہی اس کو درِ خورد استناسمجھا گیا ہے ۔ ایک ریلوے تھی اس کو جان بوجھ کر برباد کر کے اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اس کانام سن کر دل پر بوجھ سا بن جا تاہے ۔ کیا اچھا ہو تا کہ بجٹ 2013-14ریلوے سمیت ایک سرکاری ٹرانسپورٹ چلانے کے لےے ایک جامع منصوبہ پیش کیا جا تا ۔ اس کے نتیجے میں جہا ں پرائیویٹ ٹرانسپورٹروں کی لوٹ گھسوٹ سے عوام بچتے وہاں عوام کو بھی آرام مل جا تا۔ اور وقت کی بچت کے ساتھ ساتھ پٹرول ، گیس کی بھی بچت ہو تی ۔ بجٹ 2013-14کو ئی ایسی قابلِ ذکر بات نہیں جس کو دیکھ کر اندازہ لگا یا جا سکتا ۔ کہ آئندہ معاشی ہدف کا حصول ضرور ممکن ہو گا ۔ مو جو دہ حکومت کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ۔ مگر حقائق کو مد نظر رکھ کر یہ پیشن گوئی کی جا سکتی ہے ۔ ؟ کہ معاشی اہداف کے لےے اعلا نا ت ، بیانا ت سے زیا دہ عملی طور پر حکومت کو ثابت کر نا ہے کہ جس وعدوں کی بناءپر عوام نے انہیں اکثریت میں ایوان میں بھیجا ہے۔ اس کو پورا کرنے میں ہی حکومت کی بقاءہے ۔ بصورت دیگر عوام کو لمبے عرصے تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکے گا۔
........
عمومی بجٹ ! منزل ابھی دور ہے
Jun 17, 2013